کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 88
لیکن اگر کسی نے بھول کر یا لا علمی میں موجودہ نماز کو فوت شدہ سے پہلے پڑھ لیا تو اس کی نماز نسیان یا لا علمی کے عذر کی وجہ سے صحیح ہو گی۔ مسئلہ کی مناسبت سے یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ قضاء نمازوں کی دو اقسام ہیں۔ (ا) آدمی فوت شدہ نماز کی اس وقت قضاء دے جب عذر ختم ہو جائے، اس میں نماز پنجگانہ آتی ہیں کہ تاخیر کا عذر ختم ہوتے ہی انہیں پڑھ لیا جائے۔ انہیں مزید مؤخر نہ کیا جائے۔ (ب) جب نماز فوت ہو جائے تو اسے قضاء پڑھنے کے بجائے اس کے بدل کی قضا دی جائے اس قسم کے تحت نماز جمعہ آتی ہے۔ جب انسان کا جمعہ فوت ہو جائے یا امام کے ساتھ دوسری رکعت کے سجدہ میں شامل ہوا ہو تو اس صورت میں اسے نماز ظہر بطور قضا پڑھنا ہو گی، جمعہ کی نماز کے لیے کم از کم ایک رکعت پانا ضروری ہے کیونکہ حدیث میں ہے ’’جس نے نماز کی ایک رکعت پا لی اس نے نماز کو پا لیا۔‘‘ [1] اس کا مطلب یہ ہے کہ جس نے نماز جمعہ ایک رکعت سے کم پایا تو اس نے جمعہ نہیں پایا لہٰذا جمعہ کے بجائے اسے اب نماز ظہر کی قضاء دینا ضروری ہو گا۔ (واللہ اعلم) چار ماہ سے حاملہ عورت کو خون آ گیاتو نماز کا کیا حکم ہے؟ سوال:میری بیوی حاملہ تھی اسے چار ماہ کے بعد خون آنا شروع ہو گیا، اس خون کا شرعاً کیا حکم ہے آیا یہ خون نماز کے لیے رکاوٹ کا باعث ہے یا نہیں؟ کتاب و سنت کے مطابق فتویٰ دیں۔ جواب:ولادت کے بعد آنے والے خون کو نفاس کہا جاتا ہے جو خونِ حیض کی طرح نجس ہے۔ ان ایام میں نماز روزہ ادا نہیں ہوتا بلکہ ان دنوں نمازیں معاف ہوتی ہیں البتہ روزوں کی قضا ضروری ہے۔ دوران حمل جاری ہونے والا خون نفاس نہیں۔ اسی طرح چار ماہ سے قبل اگر اسقاط ہو جائے تو وہ بھی نفاس شمار نہیں ہو گا۔ ایسی عورت پر استحاضہ کے احکام جاری ہوں گے، یعنی وہ ان دنوں کی نماز روزہ کا اہتمام کرے گی، نیز اسے ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنا ہو گا۔ ایک وضو سے متعدد نمازیں نہیں پڑھ سکے گی۔ (واللہ اعلم) نماز میں سجدہ سہو کا حکم سوال ہم نے گزشتہ دنوں ظہر کی نماز باجماعت اد اکی، امام صاحب پہلی رکعت میں ایک سجدہ کر کے کھڑے ہو گئے، مگر بعد میں انہوں نے سجدہ سہو کر دیا اور کہا سجدہ رہ جانے کی تلافی سجدہ سہو کرنے سے ہو جاتی ہے، کیا ایسا کرنا شرعاً درست ہے؟ وضاحت فرما دیں۔ جواب نماز میں کمی، بیشی اور شک پڑنے سے سجدہ سہو کرنا ہوتا ہے، اگر کوئی کمی ہو تو اسے پورا کرنا ضروری ہے مثلاً اگر رکعت رہ گئی ہے تو اسے ادا کرنا ہو گا پھر سجدہ سہو کیا جائے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی دو رکعت پڑھا کر سلام پھیر دیا، یاد آنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متروکہ رکعتیں ادا کی، اس کے بعد دو سجدے کیے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا۔ [2]
[1] صحیح بخاری، المواقیت:۵۸۰۔ [2] صحیح بخاری، السہو: ۱۲۲۷۔