کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 87
جواب:جو آدمی نماز نہیں پڑھتا۔ بار بار توجہ دلانے کے باوجود نماز کے قریب نہیں جاتا حتیٰ کہ عیدین کی نماز بھی نہیں پڑھتا گویا اس کے نامہ اعمال میں نماز نامی کوئی چیز نہیں ہے ایسا آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہے، اس کے ساتھ رہنا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن شقیق رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اعمال میں سے نماز کے سوا اور کسی چیز کے ترک کو کفر نہیں خیال کرتے تھے۔ [1] اس کے متعلق دیگر بہت سی احادیث ہیں جن میں ترک نماز پر کفر کا اطلاق کیا گیا ہے، ہاں اگر کوئی کبھی کبھار نماز چھوڑ دیتا ہے لیکن ترک نماز کی کھٹک دل میں محسوس کرتا رہتا ہے، اس کے متعلق اکثر علماء کچھ نرم گوشہ رکھتے ہیں لیکن صورت مسؤلہ میں جس بے نماز کا ذکر کیا گیا ہے، اس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس مسئلہ کی سنگینی کے پیش نظر ہم اپنے مسلمان بھائیوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو ایسے جہلاء کے نکاح میں نہ دیں جو نماز نہیں پڑھتے حتیٰ کہ نماز عیدین کے بھی قریب نہیں جاتے۔ اس مسئلہ میں وہ کسی قریبی رشتہ دار یا دوست کا لحاظ نہ کریں۔ اگر اس سلسلہ میں ہم نے نرمی دکھائی تو عنداللہ باز پرس ہو گی۔ (واللہ اعلم) فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی سوال:فوت شدہ نمازوں کی قضاء کس وقت اور کس طرح دینی چاہیے؟ تفصیل سے جواب دیں اور دلیل سے مزین کریں۔ جواب:فوت شدہ نمازوں کی قضاء کے متعلق ہمارے ہاں مشہور ہے کہ دوسرے دن انہیں فرض نمازوں کے ساتھ پڑھا جائے مثلاً اگر کسی وجہ سے نماز فجر رہ گئی ہو تو اسے اگلے دن نماز فجر کے ساتھ پڑھا جائے، یہ بات سرے سے بے بنیاد اور غلط ہے، بلکہ فوت شدہ نماز اسی وقت پڑھی جائے جب یاد آئے اسے آیندہ دن تک مؤخر نہ کیا جائے۔ حدیث میں ہے کہ جو شخص کسی نماز کو بھول جائے یا سویا رہے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے اسی وقت پڑھ لے جب اسے یاد آئے۔[2] امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے ’’جو شخص نماز بھول جائے وہ اسی وقت پڑھے جب اسے یاد آئے۔‘‘ [3] اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ فوت شدہ نماز کو دوسرے دن اس وقت پڑھے جب اس کا وقت آئے بلکہ فرمایا کہ اسی وقت پڑھ لے جب اسے یاد آئے، ان کے پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے فوت شدہ نمازوں کو پڑھا جائے اس کے بعد موجودہ نمازیں ادا کی جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غزوۂ خندق کے موقع پر نماز عصر فوت ہو گئی تو آپ نے غروب آفتاب کے بعد پہلے عصر پڑھی اس کے بعد نماز مغرب ادا کی۔[4] اس حدیث پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرح عنوان قائم کیا ہے’’فوت شدہ نمازوں کو پڑھتے وقت ترتیب کا خیال رکھاجائے۔‘‘ یہ عنوان اور پیش کردہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ انسان پہلے فوت شدہ نماز کو پڑھے پھر موجودہ نماز کو ادا کرے،
[1] ترمذی، الایمان:۲۶۶۲۔ [2] صحیح مسلم، المساجد:۶۸۴۔ [3] صحیح بخاری، مواقیت الصلوٰۃ، باب نمبر۳۷۔ [4] صحیح بخاری، مواقیت الصلوٰۃ:۵۹۸۔