کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 84
ذہن سے محو ہو جاتیں اور شاید کچھ لوگ بھی نماز کے بعد چلے جاتے اور پورا وعظ سننے سے محروم رہتے، اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نماز مغرب کو نماز عشاء کے ساتھ جمع کر کے پڑھا پھر آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عمل کا حوالہ دیا کہ آپ نے بھی ایسے حالات میں دو نمازوں کو جمع کیا تھا۔ سابقہ احادیث میں چار الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو نمازوں کو جمع کرنے کا سبب بن سکتے ہیں: 1) سفر 2) خوف 3 ) بارش 4) بیماری ان اسباب کے علاوہ میدان عرفہ اور مزدلفہ میں بھی جمع کرنا مناسک حج میں سے ہے۔ مستحاضہ عورت کو بھی دو نمازیں جمع کر کے ادا کرنے کی اجازت ہے۔ جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت مروی ہے، ابن قدامہ لکھتے ہیں: ’’سفر کے علاوہ بارش، بیماری یا کسی اہم ضرورت کے پیش نظر بھی نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں اگر جمع تقدیم میں پہلی نماز کے وقت دوسری نماز ادا کر لی جائے تو سفر یا بارش کا عذر ختم ہونے کے بعد دوسری نماز کا وقت باقی ہو تو ادا شدہ نماز کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ [1] دراصل ہم اس سلسلہ میں بہت افراط و تفریط کا شکار ہیں، کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ بارش، نمازوں کا جمع کرنے کا سبب نہیں ہے خواہ کتنی موسلا دھار ہی کیوں نہ ہو اور لوگوں کو آنے جانے میں دقت ہی کا کیوں نہ سامنا کرنا پڑے حالانکہ حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ کی روایات میں خوف، بارش، بیماری اور سفر وغیرہ جمع کے اسباب کے طورپر بیان ہوئے ہیں۔ [2] حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب امراء وقت بارش کی وجہ سے مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر کے ادا کرتے تو آپ بھی ان کے ہمراہ جمع کر لیتے تھے۔ [3] حضرت عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب اور حضرت عمر بن عبدالعزیزرحمۃ اللہ علیہم سے بارش کی بناء پر نمازوں کو جمع کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔[4] اس کا مطلب یہ ہے کہ بارش کی وجہ سے نمازوں کو جمع کرنے کا طریقہ رائج تھا۔ جبکہ کچھ لوگ اس قدر تفریط میں مبتلا ہیں کہ معمولی بوندا باندی یا تیز ہوا کی وجہ سے نمازوں کو جمع کرنے کے عادی ہیں، جیسا کہ سوال میں جمع کرنے کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ کاروباری حضرات کا معمول ہے کہ وہ سستی یا کاروباری مصروفیات کی بناء پر نمازوں کو جمع کرنے کا معمول بنا لیتے ہیں، بہرحال اس سلسلہ میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے کہ سفر کے علاوہ شدید بارش، سخت آندھی، انتہائی سردی یا ژالہ باری کے وقت نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے۔ جنگی حالات اور ہنگامی اوقات میں بھی نمازوں کو جمع کرنے کا جواز ہے، لیکن کاروباری مصروفیات، سستی، ہلکی پھلکی بوندا باندی، موسم کی خرابی، ابر آلودگی یا ٹھنڈی ہوا وغیرہ کے وقت نمازوں کو جمع کرنا محل نظر ہے۔ (واللہ اعلم) سجدہ شکر کے لیے باوضو ہونا سوال خوشی و مسرت کے حصول یا مصیبت و تکلیف سے نجات پر سجدہ شکر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا اس کے لیے
[1] مغنی،ص:۲۸۱،ج۲۔ [2] ارواء الغلیل،ص:۴۰،ج۔ [3] موطا امام مالک، قصر الصلوٰۃ، باب الجمع بین الصلوٰتین۔ [4] بیہقی،ص:۱۶۸،ج۳۔