کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 83
حالات میں نمازیں جمع کرنے کا جواز ہے؟ کیا صحیح مسلم میں اس طرح کی کوئی روایت موجود ہے ؟اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ جواب ہر نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا ضروری ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا﴾[1] ’’ اہل ایمان پر نماز اس کے مقررہ اوقات پرفرض کی گئی ہے۔‘‘ اس لیے کسی نماز کے وقت میں بلاعذر جمع کرنا درست نہیں ہے بلکہ بعض روایات میں ہے کہ بلا عذر نمازوں کو جمع کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ [2] اگرچہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے صراحت کی ہے کہ یہ روایت ابو علی حسین بن قیس الوھبی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے البتہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ جو بلاوجہ نمازوں کو جمع کرتا ہے وہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ [3] سوال میں صحیح مسلم کے حوالہ سے نمازوں کو بلاعذر جمع کرنے کی روایت محض ظن و تخمین پر مبنی ہے، صحیح مسلم میں کوئی ایسی روایت نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازوں کو بلا عذر جمع کیا تھا بلکہ صحیح مسلم کی روایات حسب ذیل ہیں حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو کسی قسم کے خوف یا سفر کے بغیر جمع کر کے ادا کیا۔ [4] ایک روایت کے مطابق مدینہ طیبہ میں خوف کے بغیر جمع کرنے کا ذکر ہے، راوی نے اس کی وجہ دریافت کی تو ابن عباسرضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ امت کو کسی قسم کی مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑے، ایک روایت میں خوف اور بارش کے بغیر جمع کرنے کا ذکر ہے، یہ تمام روایات مسلم میں حدیث نمبر۷۰۵ کے تحت مذکور ہیں، امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ روایت میں ’’علۃ‘‘ یعنی بیماری کے الفاظ کا اضافہ ہے۔ [5] البتہ بلا عذر کے الفاظ کسی روایت میں نہیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ طیبہ میں نمازوں کا جمع کرنا بھی کسی سبب کی وجہ سے تھا جس کی وضاحت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت سے ہوتی ہے۔ عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں ایک دن عصر کے بعد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے وعظ پر مشتمل خطبہ دیا تاآنکہ سورج غروب ہو گیا اور ستارے چمکنے لگے، لوگوں نے ’’الصلوٰۃ الصلوٰۃ؟ کہنا شروع کر دیا پھر بنو تمیم کا ایک آدمی آیا، اس نے بھی بلا دھڑک ’’الصلوٰۃ الصلوٰۃ‘‘ کی آواز بلند کی تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا افسوس ہے تو مجھے سنت کی تعلیم دیتا ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے مدینہ طیبہ میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کیا تھا۔ عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میرے دل میں کھٹکا سا پیدا ہوا۔ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مؤقف کی تصدیق کی۔ [6] اس تفصیلی روایت میں واضح ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی ایک معقول عذر کی بناء پر مغرب و عشاء کو جمع کیا تھا وہ یہ کہ آپ کسی اہم موضوع پر تقریر کر رہے تھے، اگر درمیان میں مغرب کی نماز پڑھی جاتی تو تسلسل کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے کچھ باتیں
[1] ۴/النساء:۱۰۳۔ [2] ترمذی، ابواب الصلوٰۃ:۱۸۸۔ [3] بیہقی،ص:۱۶۹،ج۳۔ [4] صحیح مسلم،صلوٰۃ المسافرین:۷۰۵۔ [5] طحاوی:۹۶،ج۱۔ [6] صحیح مسلم،صلوٰۃ المسافرین:۷۰۵۔