کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 81
بلکہ اس سلسلہ میں آپ کی واضح ہدایات ہیں، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب تم میں سے کوئی لوگوں کی امامت کرائے تو اسے تخفیف کرنی چاہیے کیونکہ مقتدیوں میں بچے ، بوڑھے، کمزور اور حاجت مند لوگ بھی ہوتے ہیں ہاں جب تنہا نماز پڑھے تو پھر جس طرح چاہے نماز پڑھے۔[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک شخص نے آپ سے شکایت کی کہ میں صبح کی نماز سے دانستہ پیچھے رہتا ہوں کیونکہ ہمارے امام بہت لمبی قراء ت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر بہت ناراض ہوئے اور آپ نے غضبناک ہو کر فرمایا:’’ تم میں سے کچھ لوگ نفرت پیدا کرتے ہیں، جو شخص دوسروں کی امامت کرائے اسے چاہیے تخفیف سے کام لے کیونکہ لوگوں میں ناتواں، بوڑھے اور ضرورت مند بھی ہوتے ہیں۔‘‘ [2] تخفیف کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ خشوع اور خضوع کے بغیر، اطمینان اور اعتدال کا لحاظ نہ رکھتے ہوئے جلد از جلد نماز کو سمیٹ لیا جائے، بلکہ امام کو چاہیے کہ وہ قراء ت میں تخفیف کرے اور رکوع وسجود کو پورا کرے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے ۔’’امام کو قیام میں تخفیف کرنی چاہیے البتہ رکوع و سجود کو پورا کرنا چاہیے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’جس شخص نے رکوع و سجود میں اپنی کمر سیدھی نہ کی، اس کی نماز کفایت نہیں کرے گی۔‘‘[3] اس حدیث کے پیش نظر نماز میں مختصر قراء ت اور مختصر اذکار سے طوالت کو کم کیا جاسکتا ہے لیکن اس کی ادائیگی میں مکمل خشوع وخضوع ا ور اطمینان و اعتدال ہونا چاہیے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو مختصر مگر مکمل پڑھا کرتے تھے۔ [4] صورت مسؤلہ میں مقتدی حضرات کے ساتھ امام کا رویہ مستحسن نہیں ہے، اسے چاہیے کہ اس پر نظر ثانی کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کو طویل نماز پڑھانے سے بایں الفاظ روکا: ’’اے معاذ رضی اللہ عنہ ! کیا تونمازیوں کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔‘‘[5] ان احادیث کی روشنی میں امام صاحب کو چاہیے کہ وہ فرض نماز کی جماعت کراتے ہوئے مختصر قراء ت کرے، جسے مقتدی حضرات برداشت کر سکتے ہوں البتہ نفل نماز میں اپنا شوق پورا کر لیا جائے۔ (واللہ اعلم) دوران نماز حیض کا آجانا سوال:نماز کا وقت شروع ہو جانے کے بعد اگر عورت کو حیض آجائے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے، آیا وہ اس نماز کی قضاء ادا کرے گی؟ جواب:اگر نماز کا وقت ہوگیا تھا، اس کے بعد عورت کو حیض جاری ہوا تو وہ حیض سے پاک ہونے کے بعد اس نماز کی قضاء دے گی جس کا وقت شروع ہو چکا تھا لیکن دوران حیض رہ جانے والی نماز کی قضاء نہیںدے گی جیسا کہ ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کیا یہ بات نہیں ہے، کہ حالت حیض میں وہ نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ ہی روزہ رکھتی ہے۔‘‘[6]
[1] بخاری، الاذان:۷۰۳۔ [2] صحیح بخاری، الاذان:۷۰۲۔ [3] مسند امام احمد ، ص: ۱۱۲، ج ۴۔ [4] صحیح بخاری، الاذا ن:۷۰۲۔ [5] صحیح بخاری، الاذان:۷۰۵۔ [6] صحیح بخاری،الحیض:۳۰۴۔