کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 80
ہے؟ وضاحت فرما دیں۔ جواب:اگرچند حضرات کسی عارضہ کی وجہ سے اصل جماعت میں شریک نہ ہوسکے ہوں بلکہ وہ تاخیر سے مسجد میں آئیں جب کہ لوگ نماز پڑھ چکے ہوں تو بلاشبہ اگر وہ جماعت سے نماز ادا کرلیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ جس صورت حال کا سوال میں ذکر کیا گیا ہے اسے مستحسن قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ ایسا کرنا جماعتی استحکام اور اجتماعیت کو توڑنے کے مترادف ہے، اہل علم حضرات کو اس رویے پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ اصل مسئلہ کی وضاحت حسب ذیل ہے۔ ایک ہی مسجد میں فرض نماز کی دوسر ی جماعت جائز اور درست ہے جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اکیلے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کیا کوئی شخص ہے جو اس پرصدقہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ نماز ادا کرے۔[1] امام حاکم اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مساجد میں دو مرتبہ جماعت کی دلیل ہے۔[2] ہمارے رجحان کے مطابق ایک مسجد میں دوسری جماعت جائز ہے جیسا کہ درج بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے البتہ حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے عمل کی وجہ سے اس میں کچھ کراہت معلوم ہوتی ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ ایک مرتبہ ایسی مسجد میں آئے جس میں نماز ادا کی جاچکی تھی، آپ اپنے گھر گئے وہاں اہل خانہ کو جمع کیاا ور ان کے ساتھ نماز باجماعت ادا فرمائی۔ [3] حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک دفعہ مسجد میں آئے تو نماز ادا ہو چکی تھی، آپ اپنے گھر واپس آئے اور اپنے شاگردوں حضرت علقمہ رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت اسود رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ نماز باجماعت ادا کی۔[4] بہرحال صورت مسؤلہ میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اسے کوئی بھی صاحب بصیرت اہل علم مستحسن قرار نہیں دے گا۔ (واللہ اعلم)۔ امام مقتدی حضرات کا خیال رکھے سوال:ایک امام نماز عشاء کی پہلی دورکعات میں نصف پارہ کے قریب قراء ت کرتا ہے اور مقتدی حضرات کے بڑھاپے یاان کی بیماری کا خیال نہیں رکھتا، سلام پھیرنے کے بعد اگر مقتدی احتجاج کرتے ہیں تو انہیں ڈانٹ دیتا ہے اور منبر پربیٹھ کر مقتدی حضرات کی کردار کشی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں امام ہوں ، میری مرضی، میں جس طرح چاہوں قراء ت کروں، ایسے امام کے بارے میں قرآن و حدیث کا کیا فیصلہ ہے؟ جواب:امام کو چاہیے کہ وہ مقتدیوں کا خیال رکھے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ نماز کو لمبا کرنا چاہتے تھے لیکن اپنے پیچھے بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز کو مختصر کر دیتے کیونکہ اس کے رونے سے ماں کی پریشانی کو آپ جانتے تھے۔[5]
[1] ابو داود، الصلوٰۃ:۵۷۴۔ [2] مستدرک حاکم،ص: ۲۰۹،ج ا۔ [3] مجمع الزوائد،ص:۴۵،ج ۲۔ [4] مصنف عبدالرزاق،ص:۴۰۹،ج۲۔ [5] صحیح بخاری، الا ذان:۷۰۵۔