کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 79
تھے، تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ایک حدیث کے پیش نظر کوئی بھی پسندیدہ دعا پڑھی جا سکتی ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تشہد اور درود کے بعد نمازی کو دعا کا انتخاب کرنا چاہیے جو اسے سب سے زیادہ اچھی معلوم ہو۔‘‘[1] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ’’رب اجعلنی مقیم الصلٰوة‘‘ اور’’ربنا آتنا فی الدنیا حسنة ‘‘اور اس طرح کی دیگر قرآنی دعائیں تشہد کے بعد پڑھی جاسکتی ہیں اور یہ جائز ہیں، اگرچہ مسنون نہیں ہیں۔(واللہ اعلم) نماز میں امام کو لقمہ دینا سوال:فرض یا نفل نماز میں قراء ت کے وقت بھولنے پر امام کو لقمہ دینے کی کیا دلیل ہے؟ قرآن و حدیث سے وضاحت کریں۔ جواب:فرض یا نفل نماز میں قراء ت کے وقت بھولنے پر امام کو لقمہ دے دیا جائے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی بلکہ ایسا کرنا جائز ہے جیسا کہ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ نماز میں قراء ت فر ما رہے تھے، آپ نے ایک آیت کو چھوڑ دیا، ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے دوران قراء ت ایک آیت چھوڑ دی تھی تو آپ فرمایا: ’’ تم نے وہ آیت مجھے یاد کیوں نہ کرائی، یعنی نماز میں بتلایا کیوں نہیں۔‘‘[2] اسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی تو آپ پر قراء ت خلط ملط ہوگئی، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’ کیا تونے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا کیوںنہیں؟ آپ نے فرمایا:’’ پھر تمہیں کس بات نے (غلطی بتانے سے) رو کے رکھا ؟‘‘[3] ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نماز پڑھتے ہوئے اگر امام بھول جائے تو اسے لقمہ دیا جاسکتا ہے چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم عہد رسالت میں اپنے امام کو لقمہ دیا کرتے تھے اور اسے حرج خیال نہیں کیا جاتا تھا۔[4] اس سلسلہ میں ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ نماز میں امام کو لقمہ نہ دیا کرو۔[5] لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، اسے دورانِ نماز لقمہ نہ دینے کے بارے میں بطور دلیل پیش نہیں کیا جاسکتا۔(واللہ اعلم) مسجد میں دوسری جماعت کا جواز سوال:ہمارے ہاں عام طور پر دینی جلسوں میں دیکھا جاتا ہے کہ نماز باجماعت ادا ہو رہی ہوتی ہے تو کچھ حضرات اپنے کام میں یا فضول باتوں میں مصروف رہتے ہیں، جب جماعت ہو جاتی ہے تو وہ اپنی جماعت کراتے ہیں، اسی طرح مسجد میں متعدد جماعتیں ہوتی ہیں، ایسی جماعتوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا ایک مسجد میں ’’اصل جماعت‘‘ کے بعد دوسری جماعت کی گنجائش
[1] صحیح بخاری، الا ذان: ۸۳۱۔ [2] بیہقی، ص :۲۱۱، ج۳۔ [3] ابوداود، الصلوٰۃ:۹۰۷۔ [4] مستدرک حاکم، ص : ۲۷۶ ج ۱۔ [5] ابوداود، الصلوٰۃ:۹۰۸۔