کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 73
میں نہ تھا اس کی ہم اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے تھے۔ اس سلسلہ میں دوسرا مؤقف یہ ہے کہ قبلہ کی طرف منہ یا پشت نہ کرنے کی پابندی صحراء میں ہے۔ آبادی یعنی عمارت میں نہیں ہے۔ چنانچہ مروان اصفر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا انہوں نے قبلہ کی طرف اپنی سواری بٹھائی پھر اس کی طرف منہ کر کے پیشاب کرنے لگے۔ میں نے ان سے کہا اے ابو عبدالرحمن رضی اللہ عنہ ! کیا اس سے منع نہیں کیا گیا ؟ انہوں نے فرمایا کیوں نہیں، اس عمل سے صرف فضاء میں منع کیا گیا ہے اور جب تمہارے اور قبلہ کے درمیان کوئی اوٹ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ [1] اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی پیش کیا جاتا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا ہی بیان ہے کہ میں ایک دن حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی چھت پر چڑھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شام کی طرف منہ اور کعبہ کی طرف پشت کر کے قضاء حاجت کرتے ہوئے دیکھا۔ [2] اگرچہ ان احادیث کے پیش نظر علماء کی ایک جماعت کا یہی موقف ہے کہ قضائے حاجت کے وقت قبلہ رخ ہونا صرف صحراء میں منع ہے۔ آبادی یا عمارتوں میں یہ پابندی ضروری نہیں ہے۔ لیکن ہمارے رجحان کے مطابق ایسا کرنا مطلق طور پر منع ہے، یعنی آبادی اور صحراء میں اس امر کی پابندی کی جائے کہ قضاء حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پشت نہ ہونے پائے، بیت اللہ کی تقدیس اور تعظیم کا یہی تقاضا ہے نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا فعل امت کو دئیے ہوئے حکم خاص کے مخالف نہیں ہے۔ صورت مسؤلہ میں چونکہ مالی حالت اس قسم کی ہے کہ لیٹرین کو صحیح کرنے سے رکاوٹ کا باعث ہے۔ اس لیے ایسے حالات میں سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے معمول کو اختیار کیا جا سکتاہے کہ قضاء حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنے سے احترام کیا جائے، اور اس سے پھرنے کی کوشش کی جائے، لیکن اگر پوری طرح اس سے انحراف نہ ہو سکے تو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جائے، جب مالی طور پر حالات ساز گار ہو جائیں تو اس قسم کی لیٹرین کا رخ تبدیل کر دیا جائے‘ اگرچہ بعض علماء کے نزدیک عمارتوں میں گنجائش ہے تاہم بہتر ہے کہ عمارتوں میں بھی اس سے اجتناب کیا جائے تاکہ بیت اللہ کی عظمت برقرار رہے۔ (واللہ اعلم)
[1] ابوداود، الطہارۃ:۱۱۔ [2] صحیح بخاری، الوضوء: ۱۴۵۔