کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 57
موزوں کے بالائی حصہ پر مسح کرتے دیکھا ہے۔ [1] مسح کی کیفیت کے متعلق کوئی صحیح حدیث ہماری نظر سے نہیں گزری، لہٰذا اتنے حصہ کا مس کرنا جسے لغت اور عرف میں مسح کہا جا سکتا ہے کفایت کر جائے گا۔ انگلیوں کو تر کر کے اوپر کی جانب خط کھینچ لیا جائے۔ اس کی مدت مقیم کے لیے ایک دن ایک رات اور مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں جیسا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ: ’’مسافر کے لیے تین رات اور تین دن اور مقیم کے لیے ایک دن اور رات مسح کی مدت ہے۔‘‘ [2] اس دوران اگر جنابت یا احتلام ہو جائے تو انہیں اتارنا ضروری ہے۔ (یعنی پاؤں پر مسح کے بجائے ان کو دھویا جائے گا)۔ [3] باریک جرابوں پر مسح سوال:جرابوں پر مسح کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے، کیا ان کے لیے موٹایا باریک ہونے کی شرط ہے یا نہیں؟ سردی کے موسم میں اکثر لوگ جرابوں پر مسح کرتے ہیں لیکن کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ موجودہ جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے۔ ہم لوگ بہت فکر مند ہیں کہ ہماری وہ نمازیں جو ہم نے جرابوں پر مسح کر کے ادا کی ہیں، وہ کہیں ضائع نہ ہو جائیں۔ براہ کرم اس کی وضاحت کر دیں۔ جواب:دین اسلام کی بنیاد سہولت پر ہے اور شریعت کے تمام احکام میں اس قدر سہولت رکھی گئی ہے کہ مزید رعایت کا تصور نہیں ہو سکتا، اس لیے دین اسلام رحمت اور دلوںکی تسکین کا باعث ہے سخت سردی کے دنوں میں جرابوں پر مسح کی سہولت بھی اسی نوعیت کی ہے، جرابوں پر مسح کے متعلق چند ایک احادیث کتب حدیث میں مروی ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کسی مہم کے لیے ایک فوجی دستہ بھیجا، جنہیں سردی سے بہت تکلیف ہوئی، جب وہ واپس آئے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے سخت سردی کی شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ ایسے حالات میں پگڑی اور جرابوں پر مسح کر لیا کریں۔ [4] اس حدیث کے پیش نظر سردی کے موسم میں جرابوں پر مسح کی رخصت اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تو جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔[5] اس حدیث کے پیش نظر متعدد صحابہ کرام جرابوں اور جوتوں پر مسح کرنے کے قائل اور فاعل ہیں، علامہ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام نے جرابوں پر مسح کیا ہے اور ان کے زمانہ میں کوئی بھی ان کا مخالف ظاہر نہیں ہوا، لہٰذا یہ اجماع کی مانند ہی ہے۔[6] حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جرابوں نیز جوتوں پر مسح کیا۔[7] اس کے علاوہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری حدیث مروی ہے جو صریح الدلالۃ اور صحیح الاسناد ہے، حضرت ازرق بن قیس کہتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ایک دفعہ بے وضو ہوئے تو انہوں نے اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے، پھر انہوں نے اونی
[1] بیہقی، ص: ۲۹۲، ج۱- [2] صحیح مسلم، الطہارۃ: ۶۷۶۔ [3] مسند امام احمد، ص: ۲۳۹، ج۴۔ [4] مسند امام احمد، ص: ۲۷۵، ج۲- [5] مسند امام احمد، ص: ۲۵۲، ج۴۔ [6] المغنی، ص: ۳۷۴، ج۱۔ [7] ابن ماجہ، الطہارۃ: ۵۶۰۔