کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 56
اس پر تیمم نہیں ہو سکتا، بہرحال بارش کی وجہ سے جمی ہوئی مٹی پر تیمم ہو سکتا ہے اگرچہ اس پر غبار نہ ہو لیکن لکڑی اور فرش وغیرہ پر اگر غبار ہو تو تیمم جائز ہے بصورت دیگر اس سے تیمم نہیں کرنا چاہیے۔ بچے کا پیشاب کپڑوں کو لگ جائےتو؟ سوال:چھوٹے بچے کا پیشاب اگر کپڑوں کو لگ جائے تو کیا اسے دھونا چاہیے یا اس پر پانی بہا دیا جائے؟ اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی کریں۔ جواب:پیشاب پلید ہے، اسے دھونا چاہیے، البتہ بچے کے پیشاب میں شریعت نے کچھ نرمی کی ہے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: لڑکی کے پیشاب سے آلودہ کپڑا دھویا جائے۔ البتہ لڑکے کے پیشاب سے آلودہ کپڑے پر چھینٹے مارے جائیں گے۔[1] لیکن یہ اس وقت ہے جب بچہ دودھ پیتا ہو جیسا کہ ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ چنانچہ حضرت ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا اپنے چھوٹے بچے کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئیں جو ابھی دودھ نہیں پیتا تھا، اس بچے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا، اس پر چھینٹے مارے لیکن اسے دھویا نہیں۔ [2] البتہ اگر لڑکی کسی کپڑے پر پیشاب کر دے تو اسے دھونا چاہیے وہ صرف چھینٹے مارنے سے پاک نہیں ہو گا کیونکہ پیشاب ناپاک ہے خواہ بچی کا ہو یا بچے کا، البتہ بچے کے پیشاب کے لیے شریعت نے کچھ نرمی رکھی ہے کہ اسے دھونے کے بجائے کپڑے پر صرف چھینٹے مار دئیے جائیں۔ صورت مسؤلہ میں اگر کسی لڑکی کا پیشاب لگا ہے تو اسے دھو لیا جائے اور اگر شیرخوار بچے کا پیشاب ہے تو اس پر ویسے ہی پانی بہا دیا جائے، اسے دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔ (واﷲ اعلم) جرابوں یا موزوں پر مسح کرنا؟ سوال:جرابوں یا موزوں پر مسح کب کیا جا سکتا ہے، اس کا کیا طریقہ ہے، نیز مسح کرنے کی اجازت کس حد تک ہے؟ تفصیل سے راہنمائی کریں۔ جواب:جرابوں یا موزوں پر مسح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں باوضو ہو کر پہنا جائے پھر جب وضو ٹوٹے گا تو تازہ وضو سے اس کی مدت شروع ہو گی۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’ان موزوں کو چھوڑ دو کیونکہ جب یہ موزے پہنے تھے تو میں وضو سے تھا۔‘‘ [3] جرابوں اور موزوں کے اوپر والے حصے پر مسح کرنا چاہئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے کہ اگر دین کا دارومدار رائے اور عقل پر ہوتا تو پھر موزوں کی نچلی سطح پر مسح کرنا زیادہ قرین قیاس تھا، نہ کہ اوپر والی سطح پر جبکہ میںنے خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو
[1] ابو داود، الطہارۃ: ۳۷۶۔ [2] مستدرک حاکم، ص: ۱۶۶ ج۱- [3] صحیح بخاری، الوضوء: ۲۰۶۔