کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 509
گھوڑے کے ملاپ سے خچر پیدا کرنا ہے، اگرچہ شریعت نے اس سے منع کیا ہے تاہم فوجی حضرات اپنی ضرورت کے لیے مصنوعی بار آوری کے ذریعے خچر کو پیدا کرتے ہیںیہ خچر خود آگے افزائش نسل کے قابل نہیں ہوتا خواہ نر ہو یا مادہ، اس کی پیدائش صرف اس کی ذات تک محدود رہتی ہے۔ اس کے آگے نسل نہیں چلتی ہے، اس وضاحت کے بعد ہم صورت مسؤلہ کا جائز لیتے ہیں کہ سائنسی اعتبار سے یہ ناممکن ہے کہ خنزیر اور گائے کے ملاپ سے کوئی نسل پیدا کی جائے جس میں گائے کی خصوصیات ہوں اور دودھ دینے کے اعتبار سے وہ خنزیر کی خصوصیات کی حامل ہو۔ موجودہ اسٹریلین گائے مستقل ایک جنس ہے جس کی آگے نسل چلتی ہے، ان میں نر و مادہ دونوں جوڑے رہتے ہیں، جب پاکستان میں اس نسل کی پہلی کھیپ آئی تو بلوچستان کے ٹھنڈے علاقہ میں رکھا گیا۔ اس کھیپ میں نر اور مادہ دونوں قسم کے جانور تھے، ان کے ملاپ سے آگے نسل بھی چلائی گئی، میں نے اس سلسلہ میں اس وقت کے محکمہ لائیوسٹاک کے ڈائریکٹر سے ملاقات کی، اگر یہ گائے خنزیر کے ملاپ سے پیدا ہوئی تو اس کی نسل آگے نہ چلتی جیسے خچر کی نسل آگے نہیں چلتی ہے، دودھ زیادہ دینے کی اور کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، اس سلسلہ میں غذائیں اور چارہ بھی کافی معاون ہوتا ہے میں نے رینالہ فارم میں ایسی گائیں خودد یکھیں ہیں جن کے پیٹ پر ایک پیچدار پائپ لگا ہے ان کےمعدے تک پہنچتا ہے۔ انہیں چارہ کھلانے کے بعد پائپ کھول کر پتہ کیا جاتا کہ یہ چارہ کتنی مدت میں ہضم ہوتا ہے پھر زود ہضم چارے کا انتخاب کر کے دودھ زیادہ حاصل کیا جاتا ہے، چارے کے علاوہ دیگر غذائی مواد بھی کھلایا جاتا ہے تاکہ وہ زیادہ دودھ دیں، بہرحال اس مفروضے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ یہ نسل گائے اور خنزیر کے ملاپ سے پیدا کی گئی ہے واقعاتی اعتبار سے ایسا ہونا اس لیے بھی ناممکن ہے کہ گائے کہ کروموسوم ساٹھ اور خنزیر کے صرف اڑتیس ہوتے ہیں، ان دونوں کی تعداد میںبائیس کروموسوم کا فرق ہے پھر ان کی شکل و صورت میں واضح فرق ہے کہ مادہ خنزیر کے سولہ تھن ہوتے ہیں جبکہ گائے کے صرف چار تھن ہیں۔ خصوصیات کے اعتبار سے بھی فرق ہے کہ خنزیر انتہائی بے حیا جانور ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے حرام کیا ہے پھر جن ممالک میں اس کا گوشت کھایا جاتا ہے وہ انتہائی بے حیا اور بے شرم ہیں، اگر ایسا ممکن ہوتاتو اللہ تعالیٰ حضرت نوح علیہ السلام کو یہ حکم نہ دیتا کہ ایک ایک جوڑا کشتی میں سوار کر لو، صرف ایک ایک جوڑا ہی کافی تھا پھر ان کے باہمی ملاپ سے آگے نسل چلائی جا سکتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا:
﴿قُلْنَا احْمِلْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ﴾ [1]
’’ہم نے نوح سے کہا کہ اس کشتی میں ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا نر مادہ رکھ لو۔‘‘
بہرحال خنزیر ایک الگ جنس ہے اور گائے ایک دوسری جنس ہے، ان کا باہمی ملاپ ناممکن تو نہیں البتہ اس سےکسی جنس کا پیدا ہونا ناممکن ہے، یورپ میں فرنگی تہذیب سے وابستہ خواتین کتوں سے بدکاری کراتی ہیں لیکن کبھی اس کے نتیجہ میں کوئی نسل پیداہوئی ہے؟ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، مجھے اس حوالہ سے اپنے فقہاء کرام سے شکوہ ہے کہ انہوں نے اس سلسلہ میں فرضی صورتیں بیان کر کے دوسروں کو پریشان کیا ہے، صرف ایک مفروضہ ملاحظہ فرمائیں۔
اگر بکری اور کتے کے ملاپ سے ایسا بچہ پیدا ہو جس کا سر کتے جیسا اور باقی دھڑ بکرے کا ہو تو اس کے حلال و حرام ہونے
[1] ۱۱/ھود:۴۰۔