کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 507
٭ حمل کا دوسرا مرحلہ جب کہ اس کے اعضاء تخلیق ہو جائیں، اس کا اسقاط بھی حرام ہے اگرچہ اس میں جان نہ پڑھی ہو کیونکہ ایسی صورت میں وہ حمل عورت کے جسم کا ایک حصہ ہوتا ہے، جس طرح کسی کا قتل کرنا درست نہیں، اس کے جسم کے کسی حصہ کو کاٹ دینا بھی جائز نہیں ہے پھر یہ جسم اور اس کا ہر ہر حصہ اللہ تعالیٰ کی ملک ہے۔ ہم اللہ کی ملک میں اللہ کی مرضی کے خلاف کوئی بھی تصرف کرنے کے مجاز نہیں ہیں، کسی انسان کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اپنے جسم کے کسی حصہ کو کاٹ ڈالے یا خود کشی کرے اگرچہ یہ اسقاط قتل نفس کے درجہ کا گناہ نہیں تاہم اس کے ناجائز ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے۔ ٭ حمل کا تیسرا مرحلہ، جب جنین میں جان پڑ جائے اور یہ چار ماہ کے بعد ہوتا ہے، اس مرحلہ میں اس کا اسقاط حرام اور ناجائز ہے کیونکہ اس میں روح اور آثار زندگی پیدا ہو چکے ہیں، اس حالت میں اسے ضائع کرنا قتل نفس کے برابر ہے۔ اس میں اور دوسرے انسانوں کے قتل میں فرق یہ ہے کہ اسے ماں کے پیٹ میں قتل کرنا ہے اور د وسرے انسان کو دنیا میں آجانے کے بعد مار دینا ہے، دونوں میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ اِمْلَاقٍ١ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِيَّاكُمْ١ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا﴾ [1] ’’اپنی اولاد کو مفلسی کے اندیشے سے مت قتل کرو، ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی۔ بلاشبہ ان کا قتل بہت بھاری گناہ ہے۔‘‘ اس آیت کے مخاطب جہاں وہ لوگ ہیں جو اپنے بچوں کو اس دنیا میں آنے کے بعد زندہ درگور کرتے تھے وہ لوگ بھی ہیں جو شکم مادر میں پرورش پانے والے بچوں کو زندگی سے محروم کر دیتے ہیں، اگر ایسی صورت سامنے آجائے کہ ماں کی جان خطرے میں ہو اور حمل کے اسقاط کے بغیر اس کی جان بچانا ممکن نہ ہو تو اس صورت میں حمل کا اسقاط کیا جا سکتا ہے خواہ وہ کسی مرحلہ میں ہو کیونکہ سنگین نقصان سے بچنے کے لیے ہلکے نقصان کو برداشت کر لینا عین انصاف اور قرین قیاس ہے۔ ماں کی موت ایک سنگین نقصان ہے اور اس کے مقابلہ میں حمل کا اسقاط اس سے کم درجہ کا نقصان ہے پھر ڈاکٹر حضرات کی تشخیص کوئی یقینی اور حتمی نہیں ہوتی کہ اسے بنیاد بنا کر ایک جان کو ضائع کر دیا جائے، ان کی تحقیق ایک ’’ظن‘‘ کے درجہ میں ہے کہ یہ بچہ آیندہ معمول کی زندگی نہیں گزار سکے گا، شریعت میں ایسے ظن کو بنیاد بنا کر اتنا بڑا نقصان کرنا جائز نہیں ہے۔ صورت مسؤلہ میں حمل کو پانچ ماہ گزر چکے ہیں اور وہ تیسرے مرحلہ میں داخل ہو چکا ہے اس لیے ڈاکٹروں کے کہنے پر اسے ضائع کرنا غیر قانونی اور غیر اسلامی بلکہ غیر انسانی حرکت ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم) جانوروں کی پیوندکاری کرنا سوال:آج کل جانوروں کی پیوندکاری کی جاتی ہے، جس طرح گھوڑے کی ایک نسل کی دوسری نسل کے اختلاط سے خچر تخلیق کی گئی ہے، اس طرح ایک بھیانک اور ناپاک درندے خنزیر کے اختلاط سے گائے کی ایک نسل پیدا کی گئی ہے، چونکہ مذکورہ
[1] ۱۷/بنی اسرائیل: ۳۱۔