کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 506
کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے، حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے بھائی کی سفارش کرے پھر اسے تحائف دیے جائیں اور وہ انہیں قبول کرے تو یہ سود کے دروازوں میں سے ایک بڑے دروازے کو آیا ہے۔ [1]
لہٰذا ایسے حالات میں تحائف دینے اور لینے سے اجتناب برتنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)
اسقاط حمل کب جائزہے؟
سوال:میری بیوی پانچ ماہ کی حاملہ ہے، طبی رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ بچہ ناقص الخلقت ہونے کی وجہ سے معمول کی زندگی نہیں گزار سکے گا، یا وہ کسی خطرناک موروثی بیماری کا شکار ہو گا، کیا ایسی صورت میں اس کا اسقاط جائز ہے؟ کیونکہ وہ پیدا ہونے کے بعد والدین اور معاشرہ پر بوجھ ہو گا، کتاب و سنت میں اس کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟
جواب:ماں کے پیٹ میں جو بچہ پرورش پاتا ہے، اسے جنین کہا جاتا ہے، اس کی تین حالتیں ہوتی ہیں۔
1) میاں بیوی دونوں کا مادہ منویہ مل کر نطفہ امشاج کی شکل میں رحم میں استقرار پاتا ہے پھر وہ جما ہوا خون بن جاتا ہے۔
2) دوسرے مرحلہ میں وہ گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے اور انسانی اعضاء کی تخلیق ہوتی ہے، حتی کہ انسانی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
3) تیسرے مرحلہ میں اس کے اندر روح پھونک دی جاتی ہے اور وہ جیتا جاگتا انسان بن جاتا ہے، ان تینوں مراحل کی ایک حدیث میں نشاندہی کی گئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک کی تخلیق اس کی ماں کے پیٹ میں اس طرح مکمل کی جاتی ہے کہ وہ چالیس روز تک نطفہ رہتا ہے پھر اتنی ہی مدت جما ہوا خون رہتا ہے پھر اتنی ہی مدت گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ چار باتیں لکھنے کے لیے اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے وہ اس کا کردار، اس کی عمر، اس کا رزق اور اس کا بدنصیب یا سعادت مند ہونا لکھتا ہے، پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔‘‘ [2]
ان تینوں مراحل میں اسقاط جائز نہیں ہے کیونکہ شریعت نے نکاح کو اس لیے مشروع قرار دیا ہے کہ اس کے ذریعے توالد و تناسل کا سلسلہ جاری رہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’تم محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جنم دینے والی عورت سے نکاح کرو کیونکہ میں تمہاری کثرت کے باعث دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔‘‘ [3]
نکاح کے اس مقصد کے پیش نظر اسلام نے ہمیں ہر اس عمل سے منع کیا ہے جو اس مقصد کے متصادم ہو مثلاً مانع حمل ادویات، نس بندی اور اسقاط حمل وغیرہ۔
٭ حمل کے پہلے مرحلہ کا اسقاط اس لیے منع ہے کہ عورت کے رحم میں نطفہ قرار پا جانے کے بعد بالآخر وہ زندگی اختیار کر لیتا ہے، اس لیے اس نطفہ امشاج پر بھی زندگی کا حکم ہو گا حرم میں چڑیا کا انڈا توڑ دینا، زندہ چڑیا شکار کرنے کے حکم میں ہے، لہٰذا رحم مادر میں نطفہ کے جانے اور قرار پانے کے بعد اس کوبرباد کرنا جائز نہیں ہے اور اعضاء کی تخلیق سے پہلے بھی ایسا عمل اختیار کرنا جس سے وہ تولید کے قابل نہ رہے اور اس کا اسقاط ہو جائے، درست نہیں ہے۔
[1] ابوداود، البیوع: ۳۵۴۱۔
[2] صحیح بخاری، بدء الخلق: ۳۲۰۸۔
[3] ابوداود، النکاح: ۲۰۵۰۔