کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 505
بدعات کو رواج دیا جائے‘ ہمارے معاشرہ میں قوالی کو باوضو ہو کر بڑے ادب و احترام سے سنا جاتا ہے، ہمارے رجحان کے مطابق فحش گانے بھی برے اور اخلاق کو بگاڑنے والے ہیں لیکن قوالی کا درجہ فحش گانے سے بھی آگے ہے کیونکہ اس سے عقائد و نظریات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے، اس کے باجوود لوگ اسے سننا کار ثواب خیال کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے، عربی لغت کے اعتبار سے قوال،زیادہ بک بک کرنے والے کو کہتے ہیں، اس مفہوم کے پیش نظر قوالی بھی بک بک پر ہی مشتمل ہوتی ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے، سوال میں ذکر کردہ شعر کی اصل حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ دوران سفر فرمایا: ’’آج رات کون ہماری حفاظت کرے گا؟ مبادا ہم نماز فجر سے رہ جائیں۔‘‘ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس ڈیوٹی کو سر انجام دوں گا، پھر وہ مشرق کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئے تاکہ فجر ہوتے ہی اذان دیں لیکن کچھ دیر بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی غافل ہو کر سو گئے، جب آفتاب گرم ہو اتو بیدار ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جاگے اور دیگر صحابہ کرام بھی اٹھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اونٹوں کی مہاریں پکڑ کر یہاں سے جلدی چلو کیونکہ یہ شیطان کی جگہ ہے، پھر آگے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وضو کرنے کا حکم دیا، وہاں دن چڑھے حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی اور فجر کی نماز باجماعت ادا کی گئی۔ [1] واقعہ اس قدر ہے جو ہم نے اختصار سےے بیان کر دیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر صحابہ کرام اس وقت بیدار ہوئے جب سورج طلوع ہو کر گرم ہو چکا تھا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے بھی سورج طلوع ہونے کے بعد اذان دی لیکن قوال حضرات نے اس واقعہ کو غلط رنگ دیا اور پھر لوگوں کے عقائد خراب کرنے کے لیے اسے خوب ہوا دی ہے۔ سرکاری اہل کار کو تحفہ دینا سوال:جو اہل کار سرکاری طور پر کسی کام کے لیے تعینات ہوتے ہیں، ان کو تحفہ وغیرہ دینا اور ان کے تحائف قبول کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟ تفصیل سے ہماری راہنمائی فرمائیں۔ جواب:سرکاری طور پر جو آدمی کسی کام کے لیے تعینات ہے اور اسے باقاعدہ اس کام کی تنخواہ ملتی ہے تو ایسے لوگوں کو تحائف دینا اور ان کے تحائف قبول کرنا ناجائز اور حرام ہے کیونکہ وہ اس کام کی باقاعدہ تنخواہ لیتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس شخص کو ہم کسی کام پر تعینات کریں اور ہم اسے اس کام کا مقررہ معاوضہ بھی دیں تو پھر وہ جو کچھ بھی اس تنخواہ کے علاوہ لے گا وہ خیانت ہو گی۔‘‘ [2] سرکاری اہل کار کو چاہیے کہ وہ دیانت داری کے ساتھ اپنا کام سر انجام دے، اس پر وہ کسی قسم کا تحفہ قبول نہ کرے کیونکہ ایسا کرنا رشوت اور خیانت میں شامل ہے ہاں اگر تحفہ کسی غرض کے بغیر ہو اور اسے عہدہ سے پہلے بھی تحفہ دیا جاتا تھا تو اسے قبول کرنے میں چنداں حرج نہیں ہے، اگر ایسا نہیں ہے تو لازماً تحفہ دینے والا سرکاری اہل کار کو اپنی طرف مائل کر کے اپنے مقاصد کو اس کے ذریعے پورا کرنا چاہتا ہے اور اپنے حق میں فیصلہ کرانا چاہتا ہے۔ لہٰذا ایسے حالات میں سرکاری اہل کار کو تحفہ دینے اور اسے قبول
[1] صحیح بخاری، مواقیت: ۵۹۵۔ [2] ابوداود، البیوع: ۲۹۴۳۔