کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 503
کر دیا ہے اور اپنے ماں باپ پر فخر کرنے کو بھی نابود کر دیا ہے، لوگ صرف دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں، ایک نیک اور پرہیز گار جو اللہ کی نگاہ میں عزت والا ہے اور دوسرا فاجر اورشقی جو اللہ کی نگاہ میں ذلیل ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا ہے، لوگوں کو اپنے آباء و اجداد پر فخر کرنا چھوڑ دینا چاہیے بصورت دیگروہ اللہ کی نظر میں گندگی کے کیڑے سے بھی زیادہ ذلیل ہوں گے۔‘‘ [1] بہرحال اسلام میں ذات پات کی حیثیت باہمی تعارف کی ہے، اس لیے تعارف کے طور پر اپنے نام کے آگے لکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ اسے فخر اور غرور کا ذریعہ ہرگز نہیں بنانا چاہیے۔ مال کی حفاظت میں مارا جانا سوال:ہمارے گھر میں ڈاکو آ گئے، میرے بیٹے نے ہمارا اور ہمارے مال کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان اللہ کے حوالے کردی، اسے گولی لگی وہ اسی وقت اللہ کو پیارا ہو گیا، ایسی موت کے متعلق شرعی طور پر کیا حکم ہے؟ قرآن و حدیث کے مطابق فتویٰ دیں۔ جواب:کاش کہ ہمارا ملک امن کا گہوارہ ہوتا لیکن ہر طرف جنگل کا قانون ہے، یہاں نہ کسی کی جان محفوظ ہے اور نہ ہی کسی کے مال کی حفاظت کی جاتی ہے، ڈاکو جب چاہتے ہیں جسے چاہتے ہیں لوٹ لیتے ہیں، افسوس یہ ہے کہ ہمارے محافظ ان کے ساتھ ملے ہوتے ہیں،ایسے حالات میں نہایت حکمت عملی کے ساتھ کوئی اقدام کرنا چاہیے۔ قرآن و حدیث کے مطابق اپنی جان، اپنے مال، اہل و عیال اور عزت و دین کے دفاع میں مارے جانا شہادت کی موت ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا وہ شہید ہے، جو اپنے اہل و عیال کے دفاع میں قتل کر دیا گیا وہ بھی شہید ہے، جو اپنا دین بچاتے ہوئے مارا گیا وہ بھی شہید ہے اور جو اپنی جان بچاتے ہوئے قتل کر دیا گیا وہ بھی شہید ہے۔‘‘ [2] فقہی اصطلاح میں اس قسم کی شہادت کو شہادتِ صغریٰ کہتے ہیں، البتہ شہادت کبریٰ یہ ہے کہ جو مجاہد میدان کارزار میں اللہ کے دین کو بلند کرنے کا عزم لے کر اپنی جان اللہ کے حوالے کر دے، صورت مسؤلہ میں نوجوان نے اہل خانہ اور اہل خانہ کے مال کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان اللہ کے سپرد کی ہے، حدیث بالا کے مطابق وہ شہید ہے لیکن اس قسم کی شہادت اس انسان کے لیے کارآمد ہے جس کا عقیدہ صحیح ہو، اگر عقیدہ خراب ہے تو شہادت کبریٰ بھی اس کے کام نہیں آ سکے گی، اللہ تعالیٰ ہماری اور ہمارے اموال کی حفاظت فرمائے۔ آمین!۔ خاوند کے رضاعی باپ سے پردہ کرنا سوال میرے خاوند نے ایک عورت کا دودھ پیا تھا، اس لیے وہ اس کی رضاعی ماں ہے اور اس کا شوہر اس کا رضاعی باپ ہے، کیا میرے لیے اپنے خاوند کے رضاعی باپ سے پردہ کرنا ضروری ہے یا حقیقی باپ کی طرح اس سے پردہ نہیں کرنا ہو گا؟
[1] مسند امام احمد، ص: ۳۶۱،ج۲۔ [2] ابوداود، السنۃ: ۴۷۷۲۔