کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 502
اِسلام میں ذات پات کا مقام سوال:کیا اسلام میں ذات پات کی کوئی حیثیت نہیں ہے؟ اگر کوئی حیثیت نہیں تو لوگ اپنے نام کے ساتھ کیوں لکھتے ہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔ جواب:اسلام میں ذات پات کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اس ذات پات کو کسی صورت میں فخر و مباہات کا ذریعہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ پیدائش اور خلقت کے اعتبار سے تمام انسان برابر ہیں، کیونکہ ان کا پیدا کرنے والا ایک رب ہے، تمام انسانوں کا مادہ تخلیق اور طریق پیدائش بھی ایک ہی ہے۔ نیز ان سب کا نسب ایک ہی ماں باپ تک پہنچتا ہے، اس کے علاوہ کسی شخص کا کسی خاص ایک قوم یا براداری میں پیدا ہونا ایک اتفاقی امر ہے، اس میں انسان کے اپنے ارادہ، انتخاب اور اس کی اپنی کوشش کو کوئی دخل نہیں ہے، اس بنا پر کوئی معقول وجہ نہیں کہ ذات پات کے اعتبار سے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل ہو۔ اصل چیز جس کی بنا پر ایک شخص کو دوسروں پر فضیلت حاصل ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا، برائیوں سے نفرت کرنے والا اور نیکی اور تقویٰ کی راہ پر چلنے والا ہو، ایسا آدمی خواہ کسی نسل، کسی قوم اور کسی ملک سے تعلق رکھتا ہو، وہ اپنی اس خوبی کی بنا پر قابل قدر ہے اور جس شخص کا حال اس کے برعکس ہو وہ بہرحال ایک کمتر درجے کا انسان ہے وہ گورا ہو یا کالا، قریشی ہو یا حبشی، مشرق میں پیدا ہوا ہو یا مغرب میں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا١ؕ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ١ؕ[1] ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، تمہاری ذاتیں اور قبیلے اس لیے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل عزت وہی ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیز گار ہو۔‘‘ اس آیت کے مطابق ذات پات اور خاندان اور قبیلے سے صرف یہ فائدہ ہے کہ ان کے ذریعے ایک دوسرے کا تعارف حاصل ہوتا ہے، ایک شخص کا نام اسامہ ہے اور اس کے باپ کا نام زید ہے، دوسرے کا نام اور ولدیت بھی یہی ہے تو الگ الگ قبیلہ یا برادری سے متعلق ہونے کی وجہ سے ان میں امتیاز ہو جائے گا کہ ایک اسامہ بن زید انصاری ہے اور دوسرا اسامہ بن زید قریشی ہے۔ لیکن ہم لوگوں نے ان چیزوں کو باہمی تفاخر و تنافر کا ذریعہ بنا لیا ہے، کوئی تو نسل کی بنیاد پر بڑا بن بیٹھا ہے اور دوسروں کو حقیر اور ذلیل خیال کرتا ہے اور کوئی قوم، رنگ اور زبان کی وجہ سے شریف اور اعلیٰ درجہ کے انسان بن بیٹھے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا تھا۔ میری امت میں چار کام جاہلیت کی یادگار ہیں، لوگ انہیں ترک نہیں کریں گے ایک حسب و نسب پر فخر کرنا۔ دوسرا نسب میں طعنہ زنی کرنا۔ تیسرا ستاروں کو بارش برسنے میں مؤثر خیال کرنا اور چوتھا مصیبت کے وقت رونا، دھونا اور ہائے وائے کرنا۔[2] اس سلسلہ میں آپ کا درج ذیل فرمان بھی راہنما اصول کی حیثیت رکھتا ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کے فخر و غرور کو دور
[1] ۴۹/الحجرات:۱۳۔ [2] صحیح مسلم، الجنائز: ۹۳۴۔