کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 501
مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ دورِ جاہلیت میں قریش عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کا روزہ رکھتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس دن کا روزہ رکھنے کے متعلق حکم دیتے تھے، اس کے بعد جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ نے اس کے متعلق اختیار دیا اور فرمایا: ’’جس کا جی چاہے وہ اس دن کا روزہ رکھ لے اور جو چاہے وہ روزہ چھوڑ دے۔‘‘ [1] احادیث میں اس دن روزہ رکھنے کی فضیلت بھی بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم عاشوراء کے روزے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس دن کا روزہ پچھلے ایک سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘ [2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ کسی کام کے متعلق اللہ کی طرف سے امر نہ دیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کی موافقت کو پسند کرتے تھے۔ [3] پھر آپ کو اہل کتاب کی مخالفت کرنے کا حکم دیا گیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہود و نصاریٰ بھی اس محرم کی تعظیم بجا لاتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے روزے کے متعلق بھی ان کی مخالفت کرنے کا عزم کر لیا چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو ان حضرات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ اس دن کی تو یہود و نصاریٰ بھی تعظیم کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’جب آیندہ سال آئے گا تو ان شاء اللہ ہم نو محرم کا روزہ بھی رکھیں گے۔‘‘ لیکن اگلا سال آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میں آیندہ سال زندہ رہا تو نویں کا روزہ بھی رکھوں گا۔‘‘ [4] اس حدیث سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت کرتے ہوئے دسویں محرم کے ساتھ نویں محرم کا روزہ بھی رکھا جائے کیونکہ عاشوراء تو دسویں تاریخ کو ہے، اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ دسویں کے بجائے صرف نویں محرم کاروزہ رکھا جائے۔ اس سلسلہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ایک عمل کا سہارا لیا جاتا ہے حالانکہ انہوں نے خود فرمایا ہے: ’’یہود کی مخالفت کرو، نویں اور دسویں محرم کا روزہ رکھو۔‘‘ اس طرح کہ اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک دن بعد روزہ رکھو۔‘‘[5] اس حدیث کے پیش نظر کچھ اہل علم کا مؤقف ہے کہ جو شخص نو محرم کا روزہ نہ رکھ سکے وہ دس محرم کا روزہ رکھنے کے بعد یہود و نصاریٰ کی مخالفت کرتے ہوئے گیارہ محرم کا روزہ رکھ لے۔ ہمارے رجحان کے مطابق دسویں محرم کا روزہ کسی صورت میں نہ ترک کیا جائے البتہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت میں اس کے ساتھ نویں تاریخ کا روزہ رکھ لیا جائے، اگر کوئی نویں محرم کا روزہ نہیں رکھ سکا تو وہ دسویں محرم کے ساتھ گیارہ محرم کا روزہ رکھ لے۔ (واللہ اعلم)
[1] صحیح مسلم، الصیام: ۲۶۳۷۔ [2] صحیح مسلم، الصیام:۲۷۴۷۔ [3] صحیح بخاری، اللباس: ۵۹۱۷۔ [4] صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۶۶۷۔ [5] مسند امام احمد،ص: ۲۴۱،ج۱۔