کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 500
عاشوراء کا روزہ رکھنا سوال:شرعی طور پر عاشوراء محرم کی کیا حیثیت ہے، اس دن کھانے پینے کا خوب اہتمام کیا جاتا ہے پھر دودھ کی سبیلیں بھی لگائی جاتی ہیں، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اس کے روزہ کی کیا فضیلت ہے اور یہ روزہ کس دن رکھنا چاہیے، کیا نویں یا دسویں محرم یا دونوں کا روزہ رکھنا ہو گا؟ وضاحت تحریر کریں۔ جواب:محرم کا مہینہ اللہ کے ہاں بڑی قدر و منزلت کا حامل ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے عزت و احترام والا مہینہ قرار دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کے روزے اور رمضان کے روزوں کو دوسرے دنوں پر بڑی فضیلت دیتے تھے اور بڑے اہتمام کے ساتھ اس کا روزہ رکھتے تھے۔ [1] لیکن ہم لوگوں نے اس دن کے حوالے سے بہت سی بدعات جاری کر لی ہیں اور اسے کھانے پینے کا دن سمجھ لیا ہے، اس دن بڑے اہتمام سے خصوصی کھانوں کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ میٹھے پانی اور دودھ کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جشن بہاراں ہے جسے بڑے شوق سے منایا جاتا ہے، نامعلوم یہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا غم ہے یا ان کی شہادت کا جشن ہے جسے بڑے زور و شور سے ہم مسلمان مناتے ہیں؟ زمانہ قدیم سے اس دن کی اہمیت مسلمہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی اور فرعون اور اس کے لشکر کو پانی میں غرق کیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور قوم یہود اس آزادی کی خوشی میں روزہ رکھتے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس دن کا روزہ رکھا اور دوسرے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ بھی اس دن کا روزہ رکھیں، جیسا کہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہود عاشوراء کے دن کو جشن کے طور پر مناتے تھے اور اس دن اپنی عورتوں کو خصوصی طور پر زیورات پہنا کر خوشی مناتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس دن کا روزہ رکھا کرو۔‘‘ [2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ محرم کے روزے ہیں کیونکہ ماہ محرم اللہ کا مہینہ ہے اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز یعنی تہجدہے یہ نماز بہت فضیلت والی ہے۔ [3] سیدہ ربیع بنت معوذرضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے آس پاس رہنے والوں کو یہ حکم دیا کہ وہ یوم عاشوراء کا روزہ رکھیں چنانچہ ہم خود بھی روزہ رکھتیں اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتیں، جب بھوک کی وجہ سے بچے روتے تو ہم ان کے سامنے کھلونے رکھ دیتیں تاکہ ان کے ساتھ دل بہلاتے رہیں۔ [4] بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق باقاعدہ اعلان کرایا کہ جس شخص نے اس دن کا روزہ رکھا ہے وہ تو اپنا روزہ پورا کرے اور جس نے روزہ نہیں رکھا وہ بقیہ دن کچھ نہ کھائے پیئے۔ [5] جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیاری روزہ قرار دے دیا، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے
[1] صحیح بخاری، الصوم: ۲۰۰۶۔ [2] صحیح مسلم، الصیام: ۲۶۶۰۔ [3] مسند امام احمد،ص: ۳۴۴،ج۲۔ [4] صحیح مسلم، الصیام: ۲۶۶۹۔ [5] صحیح مسلم، الصیام: ۲۶۶۹۔