کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 50
جواب:مساجد کی کئی ایک اقسام ہیں، ہر قسم کے متعلق شرعی حکم بھی الگ ہے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تمام روئے زمین کو مسجد قرار دیا گیا ہے۔ جہاں کہیں دوران سفر نماز کا وقت آجائے وہیں نماز پڑھ لی جائے۔ [1] تمام روئے زمین کو حکمی طور پر مسجد قرار دیا گیا ہے، اس کے وہ احکام نہیں ہیں جو عام مساجدکے ہوتے ہیں، ایک مسجد وہ ہوتی ہے جو گھر کے کسی کونے کو یا زرعی زمین کے کسی خطہ کو سہولت کے پیش نظر مسجد قرار دے لیا جاتا ہے جیسا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کے ایک کونے کو مسجد قرار دیا تھا اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی تھی کہ آپ میرے گھر تشریف لائیں اور وہاں ایک مرتبہ نماز پڑھیں تاکہ ہم اسے مسجد قرار دیں۔ [2] اس قسم کی مساجد کو گھر یا زمین کا مالک جب چاہے ختم کر سکتا ہے اور اسے اپنے استعمال میں لا سکتا ہے۔ تیسری قسم ان مساجد کی ہے جن میں اذان وجماعت اور جمعہ کا اہتمام ہو اور اس کی زمین باقاعدہ وقف ہو۔ صورت مسؤلہ میں اسی قسم کی مساجد کا ذکر ہے کہ جب وہ کسی وجہ سے بے آباد ہو جائیں تو ایسی مساجد کے سامان اور جگہ کو کس مصرف میں خرچ کیاجائے، حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے متعلق بڑی تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مساجد کو بلاوجہ دوسری جگہ منتقل نہیں کرنا چاہیے۔ ہاں اگر پہلی مسجد بے آباد ہو جائے یا اس سے وہ مقاصد پورے نہ ہو رہے ہوں جو تعمیر مسجد کے پیش نظر ہوتے ہیں تو ایسے حالات میں ایک مسجد کو دوسری جگہ منتقل کیاجا سکتا ہے، اس صورت میں پہلی مسجد کے سازوسامان کو دوسری مسجد میں استعمال کیا جا سکتا ہے نیز بے آباد مسجد کی زمین کو فروخت کر کے اس کی قیمت کسی دوسری مسجد میں خرچ کی جا سکتی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی ایک پرانی مسجد کو دوسری جگہ منتقل کر دیا تھا اور پہلی مسجد کی جگہ کھجور منڈی بنا دی تھی۔ کیونکہ پہلے بیت المال محفوظ جگہ پر نہیں تھا، اس کی حفاظت مقصود تھی اور اسے دوسری مسجد کے قبلہ طرف بنایا تاکہ آنے جانے والے نمازی اس پر نظر رکھیں۔ [3] مندرجہ بالا تصریحات کی روشنی میں جب کوئی مسجد بے آباد ہو جائے تو اس کے سامان کو دوسری مسجد میں استعمال کیا جا سکتا ہے، نیز اس کی زمین فروخت کر کے اس کی قیمت بھی دوسری مسجد میں صرف کی جا سکتی ہے۔ (واﷲ اعلم) مسجد کے نیچے مارکیٹ یا ہسپتال سوال:ایک مسجد میں عرصہ دراز سے جماعت اور نماز کا اہتمام جاری ہے، اب اس کی شکستہ حالی کی وجہ سے اسے منہدم کر کے از سر نو تعمیر کرنا ضروری ہو چکا ہے، کیا نیچے مارکیٹ یا ہسپتال تعمیر ہو سکتا ہے جب کہ حاصل ہونے والی مالی منفعت بھی مسجد کے لیے مختص ہو گی، قریبی فرصت میں اس کی وضاحت کر دیں؟ جواب:ایک مسجد جس میں نماز باجماعت اور جمعہ وغیرہ کا اہتمام ہو چکا ہو، بلاوجہ اس کی حیثیت ختم کرنا جائز نہیں ہے ہاں اگر مسجد بے آباد ہو جائے یا اس سے وہ مقاصد پورے نہ ہورہے ہوں جو تعمیر کے وقت پیش نظر ہوتے ہیں تو ایسے حالات میں اس کی حیثیت کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ صورت مسؤلہ میں مسجد شکستہ حال ہو چکی ہے، اس لیے اسے منہدم کر کے اس کی تعمیر نو کرنا
[1] صحیح بخاری، تیمم: ۳۳۵۔ [2] صحیح بخاری، الصلوٰۃ: ۴۲۵۔ [3] مجموع الفتاویٰ، ص: ۲۱۶، ج۳۱۔