کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 498
میں سے کوئی وصف بدل جائے تو پلید ہو جائے گا اور دو قلے پانی پانچ مشکوں کے برابر ہے۔‘‘ [1]
عربی زبان میں قلہ بڑے مٹکے کو کہتے ہیں جس میں تقریباً ۲۵۰ رطل پانی آتا ہے۔ یہ مقدار ہمارے دو من پچیس سیر آٹھ چھٹانک کے برابر ہے، دو قلے تقریباً ۵۰۰ رطل یعنی پانچ من گیارہ سیر کے برابر ہوتا ہے، اتنی مقدار پانی کو ماء کثیر کہا جاتا ہے، جو اس میں گری ہوئی نجاست سے متاثر نہیں ہوتا، ہاں اگر اتنی مقدار پانی کا ذائقہ یا رنگ یا ہوا نجاست کی وجہ سے بدل جائے تو پانی پلید ہو جائے گا، صورت مسؤلہ میں دودھ کو پانی پر قیاس کیا جا سکتا ہے، جو مقدار میں اس قدر زیادہ ہے کہ ایک مردہ چھپکلی اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتی، اس سے دودھ کے ذائقے، رنگ اور ہوا میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تاہم مالکان نے اس سے ۵ ٹن کریم نکال کر اسے ضائع کر دیا، اب دیکھا جائے کہ چھپکلی کی وجہ سے اس کریم میں زہریلے اثرات کس حد تک ہیں، اس کی صراحت سوال میں کر دی گئی ہے کہ لیبارٹری ٹیسٹ سے معلوم ہوا ہے کہ ۵ ٹن کریم میں کسی قسم کے زہریلے اثرات نہیں ہیں، مزید تسلی کے لیے کسی اچھی لیبارٹری سے اسے دوبارہ ٹیسٹ کر لیا جائے اگر واقعی اس میں کسی قسم کے زہریلے اثرات نہیں ہیں تو اسے کھانے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے اور اگر اس میں کچھ اثرات ہیں تو اسے صابن بنانے میں استعمال کیا جا سکتا ہے، اتنی مقدار کو محض شکوک و شبہات کی بنا پر ضائع کر دینا درست معلوم نہیں ہوتا۔ (واللہ اعلم)
دینی پروگرام کے لیےمخصوص تاریخ یا دن مقرر کرنا
سوال:دینی پروگرام کرنے کے لیے کوئی خاص دن یا خاص وقت مقرر کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے جب کہ دیگر مکاتب فکر ان دنوں خرافات و بدعات کی محفلیں منعقد کرتے ہوں مثلاً، ۹،۱۰ محرم اور ۱۲ربیع الاوّل کے دن دینی پروگرام کرنا پھر اس دن اہل محفل کو شربت پلانا اور کھانے کا اہتمام کرنا، ان دنوں تقاریر کا اہتمام کرنا جائز ہے یا شریعت میں ایسا کرنا ناجائز ہے؟کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔
جواب:دینی پروگرام منعقد کرنے کی دو صورتیں حسب ذیل ہیں:
1) سامعین کی سہولت یا فرصت کے پیش نظر دن یا وقت یا جگہ کا تعین کرنا مثلاً اتوار کے دن عام لوگوں کو چھٹی ہوتی ہے یا نماز عشاء کے بعد وقت فارغ ہوتا ہے یا کسی ہال میں سامعین باسہولت آ سکتے ہیں تو ایسے حالات میں دن، وقت یا جگہ کا تعین کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ مستحسن امر ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو وعظ و نصیحت کے لیے جمعرات کا دن مقرر کیا تھا۔ چنانچہ حضرت ابو وائل کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کے دن لوگوں کو وعظ و نصیحت فرماتے تھے تو ایک آدمی نے کہا: اے ابو عبدالرحمٰن! ہماری خواہش ہے کہ آپ ہمیں ہر دن وعظ کیا کریں، انہوں نے فرمایا کہ میں تمہاری اکتاہٹ کو ناپسند کرتا ہوں، اور وعظ کے لیے میں تمہارا خیال رکھتا ہوں۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا خیال رکھتے تھے، مبادا ہم اکتا جائیں۔[2]
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’جو تشنگان علم کے لیے دن مقرر کر لے تو جائز ہے۔‘‘
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو وعظ کرنے کے لیے مخصوص جگہ اور مخصوص وقت طے کیا ہوا تھا جیسا کہ حضرت ابو سعید
[1] صحیح بخاری، العلم: ۱۰۱۔
[2] ابوداود، الایمان والنذور: ۳۳۱۳۔