کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 496
٭ حنابلہ کے ہاں زوال آفتاب سے پہلے جمعہ جائز ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صراحت فرمائی کہ یہ موقف درست نہیں بلکہ ایک عنوان ان کی ترید میں بایں الفاظ قائم کیا: ’’جب سورج ڈھل جائے تو جمعہ کا وقت شروع ہوتا ہے۔‘‘ پھر آپ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زوال آفتاب کے بعد جمعہ ادا کرتے تھے۔[1] ٭ مالکیہ کے ہاں بارش کی وجہ سے جمعہ چھوڑنا جائز نہیں‘ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مؤقف کی تردید کرتے ہوئے ایک عنوان قائم کیا ہے ’’جو بارش کی وجہ سے جمعہ ادا نہ کر سکے تو اس کے لیے رخصت ہے‘‘ پھر انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کی، آپ نے فرمایا: ’’اگرچہ جمعہ کی ادائیگی بہت ضروری ہے تاہم بارش کی وجہ سے میں نہیں چاہتا کہ تمہیں مشقت میں ڈالوں تم مٹی اور کیچڑ سے لتھڑے ہوئے مسجد میں آؤ۔‘‘ [2] بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حق کی تائید و نصرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو اپنی مبارک کتاب میں جمع فرمایا ہے۔ کفّار کے ممالک کی طرف سیروسیاحت کے لیے جانا سوال:اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ہم مسلمان سیر و تفریح کے لیے کسی کافر ملک کا انتخاب کرتے ہیں، کیا سیر و سیاحت کے لیے ایسے ممالک میں جانا جائز ہے جہاں غیر مسلم لوگوں کی حکومت ہو؟ جواب:کفار کے ممالک کی طرف سفر کرنا جائز ہے، لیکن اس کے لیے تین شرائط کا پایا جانا ضروری ہے جو حسب ذیل ہیں: 1) اس کے پاس شرعی علم اس قدر ہو کہ وہ کفار کے شکوک و شبہات کا شافی جواب دے سکے۔ 2) اس پر دینی رنگ اس قدر غالب ہو کہ غیر مسلم لوگوں کی تہذیب سے متاثر نہ ہو سکے۔ 3) اسے سفر کرنے کی کوئی حقیقی ضرورت ہو جو اسلامی ممالک میں پوری نہ ہو سکتی ہو۔ اگر مذکورہ شرائط کسی میں نہیں پائی جاتی ہیں تو اسے غیر مسلم ممالک کا سفر نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس میں اس کے اخلاق و کردار کے بگڑ جانے کا اندیشہ ہے۔ ہاں اگر علاج یا تعلیم وغیرہ کے حصول کے لیے غیر مسلم ممالک میں جانا ہے جو اپنے ملک میں حاصل نہ ہو سکتی ہو تو مذکورہ شرائط کے ساتھ سفرکرنے میں چنداں حرج نہیں ہے، جہاں تک سیر و تفریح کی اور سیاحت کا تعلق ہے، اس کے لیے مسلم ممالک میں بہت سے تفریحی مقامات ہیں، جنہیں دیکھا جا سکتا ہے لہٰذا اگر انسان کے پاس فرصت کے لمحات میسر ہوں اور وہ سیر و سیاحت کا شوق پورا کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے مسلم ممالک کا رخ کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم) سالگرہ منانا سوال بچے کی پیدائش کے بعد جب اس کی ولادت کا دن دوبارہ آتا ہے تو سالگرہ منائی جاتی ہے، اس موقع پر سالگرہ کا کیک کاٹا جاتا ہے اور تحائف کا تبادلہ بھی ہوتا ہے، خوشی و مسرت کا اظہار کیا جاتا ہے، اس کے متعلق شرعی حیثیت واضح کریں۔ جواب اہل اسلام کے ہاں اس انداز سے سالگرہ منانا مستحسن امر نہیں ہے، یہ سالگرہ جواز کی نسبت بدعت کے زیادہ
[1] صحیح بخاری،الجمعہ: ۴۰۹۔ [2] بخاری، الجمعہ: ۹۰۱۔