کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 495
کوڑے مارو، دوسری مرتبہ شراب پیئے تو پھر کوڑے لگاؤ، پھر تیسری مرتبہ شراب نوشی کرے تو پھر کوڑے لگاؤ مگر جب چوتھی مرتبہ شراب نوشی کرے تو اس کی گردن اڑاد۔[1] لیکن چوتھی مرتبہ شراب پینے پر قتل کا حکم منسوخ ہے، چنانچہ اس حدیث کے بعد امام ترمذی فرماتے ہیں ’’شراب پینے والے کو قتل کرنے کا حکم پہلے تھا، اب منسوخ ہو چکا ہے، اسی موقف پر عام اہل علم ہیں، ہم ان کے درمیان کسی اختلاف کو نہیں جانتے اور اس مسئلے کی مزید تاکید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی منقول ہے کہ ’’مسلمان کا خون تین چیزوں کے علاوہ حلال نہیں ہے، ایک جان کے بدلے جان، دوسرے شادی شدہ زانی اور تیسرے مرتد۔‘‘[2]امام زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شراب پینے والا لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا راستہ چھوڑ دیا۔[3]اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر کوئی شراب پیئے تو اسے کوڑے لگاؤ اور اگر چوتھی مرتبہ پیئے تو اسے قتل کر دو۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے شراب پی رکھی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مارا لیکن قتل نہیں کیا۔[4] البتہ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا مؤقف ہے کہ چوتھی مرتبہ شراب پینے پر اسے قتل کر دیا جائے، لیکن جمہور اہل علم کا مؤقف ہے کہ اسے قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ قتل کا حکم منسوخ ہے۔[5] صحیح بخاری میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی موافقت سوال شنید ہے کہ صحیح بخاری میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی موافقت کچھ روایات ہیں، کیا اس میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی تائید میں بھی کوئی روایت موجود ہے؟ جواب صحیح بخاری میں کسی امام کی نہیں بلکہ امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہیں جو حق کی تائید و توثیق کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پیش کی ہیں، اس سلسلہ میں کسی کی موافقت یا مخالفت قطعاً پیش نظر نہیں، صرف دلیل کی بنیاد پر حق کی موافقت اور باطل کی مخالفت کی ہے جیسا کہ درج ذیل تفصیل سے پتہ چلتا ہے: ٭ شوافع کے نزدیک جمعہ کی ادائیگی کے لیے کم از کم چالیس آدمیوں کا ہونا ضروری ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی تردید کرتے ہوئے بایں الفاظ عنوان قائم کیا: ’’جب نماز جمعہ میں لوگ امام کو چھوڑ کر چلے جائیں تو باقی ماندہ لوگوں کے ساتھ امام کی نماز صحیح ہے۔‘‘ پھر آپ نے ایک حدیث بطور دلیل بیان فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ آدمیوں کے ساتھ نماز جمعہ ادا فرمائی۔[6] ٭ احناف کے ہاں جمعہ کی ادائیگی کے لیے متعدد شرائط ہیں، ان کے ہاں عام دیہاتوں میں جمعہ نہیں ہوتا، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی تردید کرتے ہوئے ایک عنوان قائم کیا ہے: ’’دیہاتوں اور شہروں میں جمعہ کی ادائیگی‘‘ پھر آپ نے ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے۔ مسجد نبوی کے بعد پہلا جمعہ عبدالقیس کی ایک جواثیٰ نامی بستی میں شروع ہوا جو بحرین کے علاقہ میں تھی۔[7]
[1] مسند امام احمد،ص: ۵۱۹،ج۲۔ [2] ترمذی حدیث :۱۴۴۴۔ [3] مسند امام احمد،ص: ۲۹۱،ج۲۔ [4] بیہقی، ص: ۳۱۴،ج۷۔ [5] نیل الاوطار، ص:۶۰۴،ج۴۔ [6] صحیح بخاری، الجمعہ: ۹۳۶۔ [7] صحیح بخاری، الجمعۃ: ۸۹۲۔