کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 492
جواب اصل کے اعتبار سے ہر چیز حلال ہے اور حرام صرف وہ ہے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کیا ہو اور جس سے انہوں نے خاموشی اختیار کی ہو وہ بھی معاف ہے چنانچہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے اور حرام وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے اور جس کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے وہ ان اشیاء سے ہے جن سے اس نے درگزر فرما دیا ہے۔‘‘ [1]
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
﴿وَ يُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَ يُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبٰٓىِٕثَ ﴾ [2]
’’وہ نبی ان کے لیے پاکیزہ اشیاء حلال قرار دیتا ہے اور خبیث اشیاء ان پر حرام کرتا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ غیر خبیث اشیاء پاکیزہ اور حلال ہیں نیز حدیث بالا کے مطابق جس چیز کے متعلق خاموشی اختیار کی گئی ہے وہ بھی قابل معافی ہے، ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر رحمت کرتے ہوئے کچھ چیزوں سے خاموشی اختیار کی ہے لہٰذا تم ان کی کُرید نہ کرو۔[3]
اشیاء کی خباثت کو مندرجہ ذیل امور سے معلوم کیا جا سکتاہے:
٭ شریعت میں اس کی حرمت کے متعلق نص موجود ہو، مثلاً گھریلو گدھے۔
٭ جن جانوروں کو مارنے کا حکم دیا گیا ہے مثلاً چوہیا، سانپ اور چیل وغیرہ۔
٭ جن جانوروں کو مارنے سے منع کیا گیا ہو مثلاً بلی وغیرہ۔
٭ جو چیز انسان کے لیے جسمانی طور پر ضرر رساں ہو مثلاً زہر۔
٭ جو چیز عقل کو نقصان پہنچاتی ہو جیسے تمام نشہ آور اشیاء، شراب وغیرہ۔
٭ جو جانور مردار کھاتا ہو جیسے گِدھ وغیرہ۔
٭ جسے ناجائز طریقہ سے ذبح ٔیا گیا ہو مثلاً غیر اللہ کے لیے ذبح کردہ یا کافر کا ذبح کردہ۔
٭ ہر کچلی والا جانور
٭ ہر چنگال والا پرندہ۔
مذکورہ بالا امور کی روشنی میں جب بگلے کو دیکھا جاتا ہے تو وہ ان میں سے کسی کی زد میں نہیں آتا وہ ایک پرندہ ہے نیچے سے شکار کر کے اپنے پنجے میں پکڑ کر نہیں کھاتا، وہ صرف فصلوں سے نکلنے والے حشرات کو کھاتا ہے، اس لیے اسے حلال قرار دیاجانا زیادہ قرین قیاس ہے۔ اس کی حرمت کے متعلق کوئی واضح دلیل موجود نہیں، اس لیے اصل کے اعتبار سے بھی حلال معلوم ہوتا ہے، نیز یہ ایسی اشیاء سے ہے جن کے متعلق خاموشی اختیار کی گئی ہے لہٰذا یہ حلال ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] ابن ماجہ، الاطعمہ: ۳۳۶۷۔
[2] ۷/الاعراف:۱۵۷۔
[3] دارقطنی، ص: ۱۸۳،ج۴۔