کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 490
جواب:واقعی جیل کی زندگی بہتعجیب اور سبق آموز ہوتی ہے چونکہ راقم الحروف نے خود پندرہ دن تک کیمپ جیل لاہور کی ہوا کھائی ہے اس لیے عملی تجربہ ہوا کہ وہاں رشوت، جھوٹ اور فراڈ وغیرہ عام ہوتا ہے۔ ہوا یوں کہ جامعہ سلفیہ سے فراغت کے بعد مدینہ یونیورسٹی حصول تعلیم کے لیے جانا تھا کچھ وقت فارغ تھا اس لیے مدرسہ رحمانیہ گارڈن ٹاؤن میں تدریس کا شعبہ سنبھال لیا۔ مدرسہ کے کونے میں بریلوی حضرات کی مسجد تھی، اہل مدرسہ اس مسجد پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے کیر کلاں کے چند لوگوں کی خدمات حاصل کر لی گئیں، انہوں نے ہوائی فائرنگ کی تو محلے کے لوگ باہر نکل آئے، پولیس کو پتہ چلا اور انہوں نے کارروائی کی جس کے نتیجہ میں راقم الحروف کو بھی ساتھ دھر لیا گیا۔ ہمیں ایک دن وحدت روڈ تھانے میں رکھا گیا پھر چالان کر کے کیمپ جیل پہنچا دیا، اس طرح جیل کے اندرونی ماحول کو دیکھنے کا موقع ملا اور پندرہ دن اپنے ناکردہ گناہ کی سزا بھگتنا پڑی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غالباً جیل کے کارندوں کے متعلق فرمایا ہے: ’’لوگوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جو اہل جہنم ہیں لیکن میں نے انہیں ابھی تک نہیں دیکھا ہے ان میں سے ایک وہ ہیں جن کے ہاتھوں میں بیلوں کی دموں کی طرح کوڑے ہوں گے اور وہ ان کے ذریعے لوگوں کو پیٹیں گے۔‘‘ [1] حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں مزید وضاحت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ! اگر تیری زندگی نے تیرا ساتھ دیا توتو ایسے لوگوں کو دیکھے گا جن کے ہاتھوں میں بیلوں کی دموں کی طرح کوڑے ہوں گے وہ اللہ کے غضب میں صبح کریں گے اور اللہ کی ناراضگی میں ان کی شام ہو گی۔ [2] ایک دوسری حدیث میں ہے کہ وہ اللہ کی ناراضگی میں صبح کریں گے اور اس کی لعنت میں ان کی شام ہو گی۔[3] ہمارے ذاتی رجحان کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن سخت دل لوگوں کی نشاندہی کی ہے اس سے مراد جیل کے کارندے اور پولیس والے ہیں جو بلاوجہ لوگوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہیں، چنانچہ جیل میں ہم نے ایک دفعہ صبح کی نماز مسجد میں ادا کرنے کا پروگرام بنایا جب کہ اس وقت حاضری اور جیل کے اندر کام تقسیم ہوتے تھے، ہماری قطار جب مسجد کی طرف جانے لگی تو ان ظالموں نے بارش کی طرح ہم پر لاٹھیاں برسانا شروع کر دیں اور وہ ہانک کر گول چکر لے گئے جہاں حاضری لگائی جاتی تھی، ایسے حالات میں انسان کو حکمت عملی سے کام لینا چاہیے اور اللہ کے دین کو پھیلانے کے لیے کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ سائل چونکہ دارالحدیث اوکاڑہ سے فارغ التحصیل ہے اس لیے جیل میں درس قرآن کی داغ بیل ڈال دی جائے، اس کے اثرات بہت اچھے ہوں گے جس کا ہمیں عملی تجربہ ہوا ہے۔ چنانچہ میں نے جیل کے اندر مسجد میں جماعت اور درس قرآن اپنے ذمے لے لیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صبح کی حاضری اور صفائی وغیرہ سےمجھے مستثنیٰ کر دیا گیا، اللہ تعالیٰ نے پندرہ دن کے بعد ضمانت کا بندوبست کر دیا۔ وللہ الحمد اولا و آخرا اب سائل کے سوالات کا ترتیب وار جواب دیا جاتا ہے۔ 1) موحدین کے لیے جیل میں جانا سنت یوسف علیہ السلام ہے، وہاں توحید کی نشر و اشاعت کی جائے جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے
[1] صحیح مسلم، اللباس: ۵۵۸۲۔ [2] صحیح مسلم، الجنۃ: ۷۱۹۵۔ [3] صحیح مسلم، الجنۃ: ۷۱۹۶۔