کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 49
خطبہ سنانے کے لیے مسجد میں لانا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے جبکہ اس سے مقصود اسے راہ راست پر لانا ہے؟ جواب:کسی بھی غیر مسلم کو وعظ ونصیحت کے لیے مسجد میں آنے کی دعوت دی جا سکتی ہے، ممکن ہے کہ اس طرح اسے توبہ اور قبولِ اسلام کی توفیق مل جائے، قرآن کریم میں اس کا واضح اشارہ موجود ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰى يَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَهٗ١ ﴾[1] ’’اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو تاآنکہ وہ اﷲ کا کلام سن لے پھر اسے اپنی جائے امن تک پہنچا دو۔‘‘ اس مقام پر مشرک کو پناہ دینے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اﷲ کی باتیں سن لے اور اسے اسلام کو سمجھنے کا موقع مل جائے، اسی طرح اگر مرزائی مسجد میں آنے کی خواہش رکھتا ہے تو اسے موقع دینا چاہیے، اور موقع کی مناسبت سے ایسا درس یا خطبہ دیا جائے جس سے وہ مطمئن ہو سکے، جس آیت کریمہ میں مشرکین کو پلید کہا گیا ہے وہ عقائد واعمال کی نجاست کی وجہ سے انہیں نجس قرار دیا گیا ہے، ویسے بھی وہاں مسجد حرام میں داخلے کی پابندی کا ذکر ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’مشرک انسان کا مسجد میں داخل ہونا۔‘‘ [2] پھر انہوں نے اس عنوان کو ثابت کرنے کے لیے ایک حدیث پیش کی ہے، جسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مختصر سادستہ نجد کی طرف روانہ فرمایا وہ لوگ قبیلہ بنو حنیفہ کا ایک آدمی پکڑ لائے جسے ثمامہ بن اثال کہا جاتا تھا، اسے مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ [3] اسی طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کو بھی مسجد میں ٹھہرایا تھا، نیز ایک مرتبہ وفد ثقیف، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور وہ لوگ مشرک تھے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد نبوی میں ہی ٹھہرایا تھا۔ 4 بہرحال اگر وعظ ونصیحت اور تبلیغ مقصود ہو تو مرزائی کو خطبہ جمعہ سننے کی دعوت دی جا سکتی ہے، اور اس کا مسجد میں آنا اور خطبہ جمعہ سننا قابل مواخذہ نہیں ہے۔ (واﷲ اعلم) نئی مسجد کی موجودگی میں پہلی مسجد کی جگہ فروخت کرنا سوال:ہم نے اپنی سہولت کے لیے تقریباً ۴ مرلہ پر مشتمل ایک گھریلو مسجد تعمیر کی۔ کچھ عرصہ بعد اس میں جمعہ اور جماعت کا اہتمام کر دیا گیا۔ پھر آبادی کی ضرورت کے پیش نظر اس کے قریب ایک دوسری مسجد ۵۰ مرلہ پر مشتمل تعمیر کی گئی، پہلی مسجد میں بچیوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری کر دیا، جب وہ تعلیم وتدریس کے لیے ناکافی ہوئی تو بڑی مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ بنا دیا گیا، اب پہلی مسجد فارغ ہے، اس کا کیا مصرف ہونا چاہیے، کیا اسے فروخت کر کے اس کی قیمت کسی دوسری مسجد پر لگائی جا سکتی ہے؟ قرآن وحدیث کے مطابق فتویٰ دیں؟
[1] ۹/التوبۃ: ۶۔ [2] صحیح بخاری، الصلوٰۃ، باب: ۸۲۔ [3] صحیح بخاری، الصلوٰۃ: ۴۶۹۔