کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 486
موقع پر بہت سے کام خلاف شریعت ہوتے ہیں، مثلاً: 1)موسیقی اور گانے بجانے کا کھلے بندوں اہتمام ہوتا ہے۔ 2) فوٹو اتارنے اور مووی بنانے میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا جاتا۔ 3) بے حجابی اور بے پردگی نیز مرد و زن کا اختلاط بھی عام ہے۔ اسی طرح دیگر خلاف شرع کام بھی ہوتے ہیں، لہٰذا ایسے کاموں کے لیے میرج ہال کرایہ پر دینا، گناہ کے کاموں میں تعاون کرنا ہے جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو، گناہ اور سر کشی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کیا کرو۔‘‘ [1] لہٰذا ہمارا رجحان یہ ہے کہ اس قسم کے ہال تعمیر کرنے میں سرمایہ خرچ کرنے کے بجائے کسی اور کام میں سرمایہ لگایا جائے، جس میں حلال منافع کی امید ہو، جیسا کہ عمارت تعمیر کر کے بینک کو کرایہ پر دینا جائز نہیں، اسی طرح دوسرے ناجائز کاموں کے لیے بھی کوئی عمارت کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے۔ (واللہ اعلم) میڈیکل کمپنی میں بطور ریپ ملازمت کرنا سوال:میں ایک کمپنی میں میڈیکل ریپ کے طور پر کام کرتا ہوں، میرے شعبہ میں کچھ کمپنیاں ڈاکٹر حضرات کو خطیر رقم دیتی ہیں تاکہ وہ ان کی تیار کردہ دوائی مریضوں کو لکھ کر دے، کیا اپنی خریداری بڑھانے کے لیے ڈاکٹروں کو بھاری رقم پیش کرنا جائز ہے؟ اگر ناجائز ہے تو ایسی کمپنی میں ملازمت کرنا حلال ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔ جواب:ڈاکٹر حضرات شعبہ خدمت خلق کا ذریعہ اور باعزت وسیلہ کسب معاش ہے، لیکن افسوس کہ اس میں ہوس زر اور جلب مال کی بہتات نظر آتی ہے، بہت کم ڈاکٹر ایسے ہیں جو مریض سے ہمدردی رکھتے ہوں اور اس کی صحت و سلامتی کے لیے ان کے دل دھڑکتے ہوں، اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو مریض کی صحت کے بجائے اس کی جیب پر نظر رکھتے ہیں، لوگوں سے پیسے بٹورنے کے لیے ان حضرات کے ہاں کئی ایک مراحل ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ سب سے پہلا مرحلہ مشورہ فیس کا ہے، اس کے لیے پہلے ٹائم لینا پڑتا ہے پھر اپنے نمبر کا انتظار کرنا پڑتا ہے، ان کے ہاں مشورہ فیس تین طرح کی ہے: 1)کلینک میں مشورہ فیس، 2) گھر جا کر مریض دیکھنے کی مشورہ فیس۔ 3) ایمر جنسی مشورہ فیس۔ ٭ دوسرا مرحلہ ٹیسٹ رپورٹ کا ہے، مریض کو مختلف قسم کے ٹیکے لکھ دئیے جاتے ہیں اور مخصوص لیبارٹری سے ٹیسٹ کرانے کی تلقین کی جاتی ہے، جتنے مریض لیبارٹری پر جائیں گے، اسی حساب سے شام کے وقت ڈاکٹر صاحب کا کمیشن باعزت طریقہ سے گھر پہنچ جاتا ہے۔ ٭ تیسرا مرحلہ دوائی لکھ کر دینے کا ہے، ادویات تیار کرنے والی بڑی بڑی کمپنیاں، ان سے رابطہ کرتی ہیں اور انہیں خطیر رقم یا بہترین ہوٹل میں قیام و طعام اور سیر و تفریح کی پیشکش کرتی ہیں تاکہ ڈاکٹر صاحب ان کی تیار کردہ ادویات مریضوںکو لکھ کر دیں۔ ٭ چوتھا مرحلہ اپنے پاس سے دوائی دینے اور ڈرپ لگانے کا ہے، مختلف کمپنیوں کی طرف سے بطور نمونہ ادویات ان کے ہاں
[1] ۵/المآئدۃ:۲۔