کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 484
کہ ہمارےہاں دریائے نیل اس وقت بہتا ہے جب قمری مہینہ کی گیارہ تاریخ کو رات کے وقت ایک جوان لڑکی اس کی نذر کی جائے، حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر جواب دیا کہ اسلام میں ایسا نہیں ہو سکتا، تاہم انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اس سلسلہ میں ایک خط لکھا، امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک جوابی رقعہ لکھا جس میں یہ عبارت تحریر تھی: ’’اللہ کے بندے عمر کی طرف سے دریائے نیل کے نام! اگر تو خود بخود بہتا ہے تو ہمیں تیری قطعاً کوئی ضرورت نہیں اور اگر تجھے اللہ تعالیٰ جاری کرتا ہے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تجھے جاری کر دے۔‘‘ جب یہ خط دریائے نیل میں ڈالا گیا تو وہ دس ہاتھ بلند ہو کر بہنے لگا۔ [1] تفسیر ابن کثیر میں بھی یہ واقعہ بیان ہوا ہے [2] لیکن یہ روایت ضعیف اور ناقابل قبول ہے بلکہ یہ تمام قصہ بے بنیاد اور باطل ہے کیونکہ اسے بیان کرنے والا عبداللہ بن لہیعہ راوی مدلس ہے جو اپنے استاد قیس بن حجاج سے بصیغہ عن بیان کرتا ہے۔ قیس بن حجاج تبع تابعی ہے جو اپنے نا معلوم استاد سے اس کہانی کو بیان کرتا ہے وہ ’’عمن حدثہ‘‘ کے الفاظ سے اس روایت کو ذکر کرتا ہے۔ بہرحال یہ قصہ صحیح سند سے ثابت نہیں ہے واعظین کو چاہیے کہ وہ ایسے بے بنیاد قصے کہانیاں بیان کرنے سے اجتناب کریں۔ (واللہ اعلم) غصہ پینے کی فضیلت سوال:ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اس شخص کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں جو غصہ آنے کے بعد معاف کر دے جبکہ وہ اسے نافذ کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہو۔‘‘ کیا یہ حدیث کے الفاظ ہیں، اگر ہیں تو حدیث کی کس کتاب میں ہیں۔ جواب:مذکورہ الفاظ کے ساتھ کوئی حدیث میرے علم میں نہیں ہے البتہ حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جو شخص غصہ پی جائے جبکہ وہ اس پر عمل درآمد کی قدرت رکھتا ہو تو اللہ اسے قیامت کے دن برسرِ مخلوق بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ جنت کی حورعین میں سے جسے چاہے منتخب کر لے۔‘‘[3] واقعی اپنے سے کمزور پر غصہ آئے تو اسے قابو کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لیکن اصل بہادری یہی ہے کہ ایسے موقع پر غصہ نکالنے کی بجائے معاف کر دیا جائے، اللہ کے ہاں اس کی جزا ہے کہ حوریں تو ہر جنتی کو ملیں گی لیکن غصہ پر قابو پا کر ظلم سے اجتناب کرنے والے کو اپنی پسند کی حوریں منتخب کرنے کا حق دیا جائے گا، قرآن کریم میں اہل ایمان کی اہم صفت یہ بیان کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَ الْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ١ وَ اللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَۚ﴾[4] ’’اور غصہ کو پی جانے والے نیز لوگوں سے درگزر کرنے والے، اللہ تعالیٰ ایسے نیکو کار لوگوں سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کے متعلق ان کی حسنِ صفات کی وجہ سے جنت کی ضمانت دی ہے جیسا کہ آپ کا ارشاد گرامی
[1] البدایہ والنھایۃ،ص: ۲۳، ج۱۔ [2] تفسیر ابن کثیر: ۴۶۴،ج۴۔ [3] جامع ترمذی، البروالصلہ: ۲۰۲۱؛ ابوداود، الادب: ۴۷۷۷؛ ابن ماجہ، الزہد: ۴۱۸۶۔ [4] ۳/آل عمران: ۱۳۴۔