کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 481
3) زیرناف بال اگ آئیں چنانچہ حدیث میں ہے کہ غزوۂ بنی قریظہ کے دن جس شخص کے زیر ناف بال اگے ہوئے ہوتے اسے قتل کر دیا جاتا اور جس کے بال نہ ہوتے اسے چھوڑ دیا جاتا۔ [1] بہرحال بلوغ کے بعد یتیمی کی حالت ختم ہو جاتی اور بلوغ کی مذکورہ بالا تین علامتیں ہیں۔ عزت وناموس کی خاطر جان قربان کرنا سوال:جب پاکستان بنا تو کئی عورتوں نے ہندوؤں اور سکھوں سے اپنی عزت و ناموس بچانے کے لیے نہر یا کنویں میں چھلانگیں لگا کر خود کشی کر لی۔ کیا ایسا کرنا قرآن و حدیث کی رو سے جائز ہے؟ براہِ کرم اولین فرصت میں اس مسئلہ کی وضاحت کریں۔ جواب:شریعت اسلامیہ میں ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دین و اخلاق، مال و متاع، جسم و جان اور عزت و ناموس کا دفاع کرے، اگر ان کی حفاظت کرتے ہوئے جان، جان آفریں کے حوالے ہو جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو شہید قرار دیا ہے اگرچہ یہ شہادت میدان کارزار میں جان قربان کر دینے سے کمتر درجہ کی ہے، تاہم اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسا انسان انتہائی پسندیدہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جو انسان اپنے اہل و عیال کو بچاتے ہوئے کام آجائے یا اپنے خون و جسم کی حفاظت میں فوت ہو جائے یا اپنے دین کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے تو وہ شہید ہے۔‘‘[2] ایک روایت میں ہے کہ جو انسان اپنے مال و متاع کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہو جائے وہ شہید ہے۔[3] عزت و ناموس کا دفاع کرنے والا بھی شہید ہے بلکہ اپنے آپ سے کسی کے ظلم کو دور کرتے ہوئے قتل ہو جانے والا بھی شہید ہے۔ [4] اپنی عزت کا دفاع کرنا اور اس سلسلہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا بہت اچھی موت ہے لیکن اس سلسلہ میں خود کشی کی اجازت نہیں ہے، حدیث میں ہے کہ ایک انسان کو گہرا زخم لگا، وہ اس کی تاب نہ لا سکا تو اس نے خود کو قتل کر دیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے بندے نے اپنی جان دینے کے متعلق مجھ سے جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے میں نے اس پر جنت کو حرام کر دیا ہے۔ [5] خود کشی کرنے والے کے متعلق بہت سی احادیث کتب حدیث میں مروی ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے تیز دھار والے آلے سے خود کو ختم کیا وہ جہنم میں اسی طرح سزا سے دو چار ہو گا۔‘‘ [6] جس نے گلہ گھونٹ کر خود کو ختم کیا یا پیٹ میں چھرا گھونپ کر اپنے آپ کو قتل کر لیا، اسے قیامت کے دن اسی قسم کی سزا دی جائے گی۔ [7] ان احادیث کی روشنی میں عزت و ناموس کو بچانے کے لیے خود کشی کی اجازت نہیں دی جا سکتی بلکہ ہمارے رجحان کے مطابق اس قسم کے حالات میں مردانہ وار مقابلہ کیا جائے اور اپنی جان اگر قربان ہوتی ہے تو اس سے دریغ نہ کیا جائے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔ ’’کیا آدمی دشمن کو گرفتاری پیش کر سکتا ہے؟ اور جو گرفتاری کے بجائے جان
[1] ابوداود حدیث: ۴۴۰۴۔ [2] مسند امام احمد، ص: ۱۹۰،ج۱۔ [3] صحیح بخاری،حدیث: ۲۴۸۰۔ [4] مسند الامام احمد، ص: ۳۰۵،ج۱۔ [5] بخاری، الجنائز: ۱۳۶۴۔ [6] بخاری، الجنائز: ۱۳۶۳۔ [7] صحیح بخاری، الجنائز: ۱۳۶۵۔