کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 479
اسی طرح صاحب مشکوٰۃ نے رزین کے حوالہ سے اس حدیث کو بیان کیا ہے جسے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، پھر حضرت سفیان کے حوالہ سے لکھا ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو حدیث کے مطابق اسے صحیح پایا، اسی طرح امام بیہقی نے اپنی کتاب شعب الایمان میں حضرت ابوہریرہ، حضرت ابو سعید اور حضرت جابر رضی اللہ عنہم سے بیان کیا ہے اور اسے ضعیف قرار دیا ہے۔[1] علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے تمام طرق ضعیف ہیں، امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے موضوع قرار دیا ہے اور ایسا مؤقف اختیار کرنا کوئی بعید از عقل نہیں کیونکہ احادیث کی صحت تجربہ کی محتاج نہیں جیسا کہ سفیان سے بیان کیا ہے۔ [2] اگرچہ بعض علماء نے اس حدیث کو قابل حجت قرار دیا ہے لیکن ہمارے رجحان کے مطابق یہ حدیث انتہائی کمزور ہے، امام ابن جوزی، ابن تیمیہ، عقیلی اور زرکشیرحمۃ اللہ علیہم نے اسے خود ساختہ کہا ہے، اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ یہ حدیث انتہائی منکر ہے۔ [3] امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ عاشوراء کے دن غسل کرنے، سرمہ لگانے، مہندی استعمال کرنے، بہترین کھانے پکانے اور خوشی کا اظہار کرنے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مروی ہے؟ حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے جواب میں فرمایا: اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کوئی صحیح حدیث مروی نہیں ہے اور نہ ہی ائمہ اسلام نے ان کاموں کو اس دن مستحب قرار دیا ہے، ائمہ اربعہ سے بھی اس سلسلہ میں کچھ منقول نہیں، نیز قرون فاضلہ میں ان امور کے متعلق کچھ مروی نہیں ہے البتہ کچھ متاخرین نے یہ احادیث بیان کی ہیں۔ مثلاً جو شخص اس دن اپنی آنکھوں میں سرمہ ڈالے گا اس کی آنکھیں سارا سال خراب نہیں ہوں گی اور جو شخص عاشوراء کے دن غسل کرے گا وہ سارا سال بیماریوں سے محفوظ رہے گا۔ نیز اس سلسلہ میں ایک خود ساختہ حدیث بیان کی جاتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کھلا جھوٹ ہے، پھر انہوں نے مذکورہ حدیث کو بیان کیا ہے۔ [4] بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کا روزہ مشروع قرار دیا ہے بلکہ آپ اس دن کا خود بھی روزہ رکھتے تھے، انواع و اقسام کے کھانوں کا اہتمام روزے کے منافی ہے، ہمیں صرف روزے کااہتمام کرناچاہیے۔ باقی تمام امور سے اجتناب کیا جائے کیونکہ اسلاف سے ایسا کرنا ثابت نہیں ہے۔ (واللہ اعلم) مشرک کاذبیحہ سوال:مشرک کے ذبیحہ کے متعلق کیا حکم ہے؟ یعنی اس کا ذبح کیا ہوا جانور حلال ہے، نیز جو شخص خود کو مسلمان کہلاتے ہیں اور شرک کا ارتکاب بھی کرے ان کے ذبیحہ کا کیا حکم ہے؟ جواب:ذبح کرنا بھی ایک عبادت ہے جو مشرک سے قبول نہیں کی جاتی، اس لیے جو بنیادی طور پر مشرک ہیں مثلاً ہندو
[1] مشکوٰۃ، کتاب الزکوٰۃ، باب فضل الصدقہ۔ [2] حاشیہ مشکوۃ،ص: ۶۰۱،ج۱۔ [3] لسان المیزان ن، ص: ۴۳۹،ج۴۔ [4] 4 الفتاویٰ،ص: ۳۰۰،ج۲۵۔