کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 478
کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔‘‘
اگرچہ اس آیت میں ’’بابرکت رات‘‘ کا ذکر آیا ہے جس میں قرآن مجید اتارا گیا، اسی رات میں سال بھر کے واقعات کا فیصلہ کیا جاتا ہے، اب اس امر کا پتہ کرنا ہے کہ وہ کون سی رات ہے؟ ہم اپنی مرضی سے اس رات کا تعین کرنے کے مجاز نہیں ہیں، جب ہم قرآن کریم میں اس کی تفسیر تلاش کرتے ہیں تو ہمیں اس امر کی وضاحت ملتی ہے کہ اس’’بابرکت رات‘‘ سے مراد شب قدر ہے جو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاقت راتوں میں آتی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِۚۖ﴾[1]
’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا ہے۔‘‘
دوسرے مقام پر ہے کہ رمضان المبارک وہ مقدس مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔ (البقرہ) اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ وہ رات ماہ رمضان میں ہے اور اسی میں انسان کی زندگی، موت، رزق اور دیگر حالات و واقعات کا ایک سال تک کے لیے فیصلہ کر دیا جاتا ہے، چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: اس بابرکت رات اور فیصلوں والی رات سے مراد لیلۃ القدر ہے اور جس نے یہ کہا کہ اس سے مراد شعبان کی پندرہویں رات ہے جیسا کہ حضرت عکرمہ سے یہ بات نقل کی گئی ہے، اس کی بات درست نہیں ہے کیونکہ نص قرآن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ رات رمضان میں آتی ہے۔ [2]
ہمارے رجحان کے مطابق شعبان کی پندرہویں رات کو فیصلوں کی رات قرار دینا بالکل غلط ہے اور اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور شعبان کی پندرہویں رات کے متعلق جتنی احادیث وارد ہیں، وہ سب کمز ور ہیں اور محدثین کے معیار صحت پر وہ پوری نہیں اترتیں۔ لہٰذا اس رات عبادت کا خصوصی اہتمام کرنا صحیح نہیں ہے اور نہ ہی یہ رات فیصلوں والی رات ہے، یہ رات شب قدر ہے جو ماہ رمضان میں آتی ہے۔ (واللہ اعلم)
عاشوراء کی فضلیت پر حدیث کی صحت
سوال:الترغیب والترھیب کے حوالہ سے ایک حدیث نظر سے گزری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل و عیال کے لیے وسعت اور فراخی کرے گا اللہ تعالیٰ تمام سال اس پر وسعت فرمائے گا۔ مجھے یہ حدیث الترغیب و الترہیب کے عربی نسخہ میں نہیں مل سکی، اس حدیث کے متعلق روشنی ڈالیں نیزبتائیں کہ اس کے مضمون کی شرعاً کیا حیثیت ہے؟
جواب:علامہ عبدالعظیم منذری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کو اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ [3]
آخر میں لکھا ہے کہ اس حدیث کو امام بیہقی وغیرہ نے تعدد طرق سے بیان کیا ہے اور یہ حدیث کئی ایک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، اس حدیث کی تمام اسانید ضعیف ہیں تاہم انہیں ایک دوسرے سے ملانے کی بنا پر کچھ تقویت حاصل ہو جاتی ہے۔ [4]
[1] ۹۷/القدر:۱۔
[2] تفسیر ابن کثیر، ص: ۱۶۳،ج۴۔
[3] الترغیب والترہیب،ص: ۱۱۶،ج۲۔
[4] حوالہ مذکور۔