کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 471
﴿فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِيْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِيْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ١ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰثَةِ اَيَّامٍ١﴾[1] ’’ قسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ دس مساکین کو اوسط درجے کا کھانا دیا جائے جو اپنے گھر والوں کو تم کھلاتے ہو یا انہیں لباس دیا جائے یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کی جائے اور جس کو استطاعت نہ ہو وہ تین دن کے روزے رکھے۔‘‘ اب لونڈی یا غلام دستیاب نہیں ہیں۔ صرف اوسط درجے کا کھانا یاانہیں لباس بنا کر دینا ہے۔ اگر کوئی آدمی صاحب ثروت نہیں تو اسے تین دن کے روزے رکھنے کا حکم ہے، واضح رہے کہ کفارہ قسم میں جن اشیاء کا ذکر ہے مثلاً کھانا یا لباس وغیرہ ہی دینا چاہیے، اس کی قیمت ادا کرنا صحیح نہیں۔ (واللہ اعلم) بریرہ نام رکھنا؟ سوال:میرے دوست کے ہاں بچی پیدا ہوئی تو میں نے اس کا نام بریرہ تجویز کیا، میرے دوست نے کہا کہ بریرہ نامی عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مرتبہ کہا نہیں مانا تھا، اس لیے مجھے یہ نام پسند نہیں ہے، اس واقعہ کی کیا حقیقت ہے، کیا اس وجہ سے یہ نام نہیں رکھنا چاہیے؟ جواب:حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ ایک قابل قدر صحابیہ ہیں، رسول اللہ کا اس پر بڑا اعتماد تھا۔ دراصل واقعہ یہ ہے کہ جب وہ لونڈی تھیں تو مغیث رضی اللہ عنہ نامی ایک صحابی سے نکاح کر دیا گیا جو کسی کے غلام تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے خرید کر آزاد کر دیا تو اسے اپنے خاوند کی زوجیت میں رہنے کا اختیار دیا گیا چونکہ وہ آزاد ہو چکی تھیں، اس لیے انہوں نے ایک غلام کی زوجیت میں رہنا پسند نہ کیا، بلکہ اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر میرا خاوند مجھے اتنی رقم بھی دے تب بھی میں اس کے ہاں رہنے کو تیار نہیں ہوں۔[2] دوسری طرف مغیث رضی اللہ عنہ کو ان سے بڑی محبت تھی، وہ مدینہ طیبہ کے گلی کوچوں میں اپنی بیوی کے فراق سے روتے اور آنسو بہاتے رہتے، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے اسے دیکھا کہ وہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے پیچھے روتا رہتا اور روتے روتے اس کی داڑھی تر ہو جاتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیفیت دیکھ کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا مغیث کی بریرہ سے محبت اور بریرہ کی اس سے نفرت باعث تعجب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو بلا کر کہا کہ تم اسے اختیار کر لو اور اپنے مؤقف سے رجوع کر لو، حصرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے تو مجھے بسر وچشم قبول ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حکم نہیں بلکہ میں اس کی صرف سفارش کرتا ہوں، حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا اگر آپ کا صرف مشورہ ہے حکم نہیں ہے تو مجھے اس مغیث کی کوئی ضرورت نہیں۔ [3] واقعہ کی حقیقت تو اس قدر ہے، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قسم کی نفرت یا ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا کہ اس نے میرا مشورہ یا سفارش نہیں مانی ہے، لہٰذا مجھے اس سے نفرت ہے، احادیث میں اس قسم کی بات کا کوئی سراغ نہیں ملتا، بلکہ اس پاکباز
[1] ۵/المائدۃ: ۸۹۔ [2] صحیح بخاری، الفرائض: ۶۸۵۸۔ [3] صحیح بخاری، الطلاق: ۵۲۸۳۔