کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 469
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جو چیز بھی اللہ کی مخلوق ہے اس کا سایہ ہے اور وہ ڈھلتا رہتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ کی مخلوق ہیں اور آیت کے عموم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ ثابت ہوتا ہے، اس کے علاوہ احادیث میںآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سائے کا ثبوت موجود ہے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ دوپہر کا وقت تھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ کو دیکھا۔[1] حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے جب ربیع الاول کا مہینہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ دیکھا۔ [2] حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے تمہارا اور اپنا سایہ دیکھا۔‘‘ [3] ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ موجود تھا، ان کے مقابلہ میں کوئی ایسی صحیح حدیث مروی نہیں ہے جس سے معلوم ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہیں تھا، پھر قرآن کریم نے متعدد آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کا ذکر کیا ہے، ان سے معلوم ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوری نہیں بلکہ بشر تھے۔ گھریلو ناراضگی کی وجہ سے پانچ ماہ کےحمل کو ضائع کرنا؟ سوال میری لڑکی کو سسرال والوں نے گھر سے نکال دیا ہے جبکہ وہ پانچ ماہ کی حاملہ ہے اور دھمکی بھی دی ہے کہ ہم نے صرف بچہ حاصل کرنا ہے، اس کے بعد ہم نے اسے طلاق دے دینی ہے، کیا اس صورت میں بچی کا حمل ضائع کیا جا سکتا ہے تاکہ اس کا آگے نکاح کرنے میں کوئی دشواری نہ ہو؟۔ جواب دین اسلام جذبات میں آکر کسی قسم کے فیصلے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا، اگر پانچ ماہ کی حاملہ بچی کو سسرال والوں نے گھر سے نکال دیا ہے تو اس صورت حال کے پیش نظر ہمیں کوئی جذباتی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے جس کی شریعت نے ہمیں اجازت نہیں دی ہے۔ خاندان میں جو صاحب بصیرت اور عقلمند حضرات ہیں، انہیں درمیان میں لا کر حالات کا جائزہ لیا جائے، اگر بچی کا کوئی قصور ہے تو اسے سمجھایا جائے، اگر سسرال والے قصور وار ہیں تو انہیں اپنے مؤقف اور رویے پر نظر ثانی کرنے کے لیے کہا جائے، اس طرح کے معاملات کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے صلح اور مل بیٹھنے میں خیر و برکت رکھی ہے۔ ایک موھوم صورت پر بنیاد رکھ کر اتنا بڑا اقدام نہ کیا جائے جس کے متعلق ہمیں قیامت کے دن باز پرس ہو۔ اسلام ہمیں ایسے حالات میں حمل ضائع کرنے کی اجازت نہیں دیتا، خاص طور پر جب چار ماہ سے زائد مدت کا حمل ہو اور اس میں روح پڑ چکی ہو تو اسے ضائع کرنا قتل ناحق کے مترادف ہے۔ ہاں اگر ایسی صورت حال سامنے آجائے کہ وہ حمل بچی کے لیے جان لیوا ثابت ہونے کا اندیشہ ہو اور کوئی تجربہ کار سمجھ دار ڈاکٹر کی رپورٹ پر اعتماد کرنے پر اسے ضائع کیا جا سکتاہے۔ لیکن صورت مسؤلہ میں اسے ضائع کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اس موقع پر ہم سائلہ کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ صبر سے کام لے، سسرال کے ہاتھوں مجبور ہو کر کوئی ایسا اقدام نہ کرے جس کی شریعت نے اجازت نہیں دی ہے، برادری کے ذریعے اس مسئلہ پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
[1] مسند امام احمد،ص: ۱۳۱،ج۶۔ [2] مسند امام احمد،ص: ۳۳۸،ج۶۔ [3] صحیح ابن خزیمہ، ص: ۵۱،ج۲۔