کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 465
پھوپھا وغیرہ، وہ محرم نہیں بن سکتے، اس کے علاوہ عورت کا دیور، چچا زاد اور ماموں زاد بھی اس کامحرم نہیں بن سکتا، یاد رہے کہ محرم کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مرد مسلمان، عاقل اور بالغ ہو، نیز وہ عورت پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو۔ (واﷲ اعلم) مسلمان عورت کو کن کن لوگوں سے پردہ نہیں کرنا چاہئے؟ سوال:مسلمان عورتوں کو کن کن لوگوں سے پردہ نہیں کرنا چاہیے۔ کتاب وسنت کی روشنی میں اس امر کی وضاحت کریں؟ جواب:مسلمان عورت صرف اپنے محرم مردوں سے پردہ نہیں کرے گی، ان کے علاوہ دیگر تمام لوگوں سے پردہ کرنا چاہیے۔ عورت کا محرم وہ شخص ہوتا ہے جس سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہوتا ہے مثلاً باپ، بھائی اور بیٹا وغیرہ۔ محارم کی حسب ذیل تین اقسام ہیں: ٭ نسبی محارم: اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرابت داری کی وجہ سے محرم بنتے ہیں، قرآن کریم نےسورۂ نور [1]میں ایسے لوگوں کی تفصیل بیان کی ہے اور وہ حسب ذیل ہیں: 1) آباء واجداد: عورت کا والد اور اس کے اوپر والے آباء واجداد، ان میں نانا اور اس کا والد بھی شامل ہے۔ 2) بھائی: عورت کے بیٹے اور ان کی اولادر اولاد، ان میں پوتے اور نواسے وغیرہ سب شامل ہیں۔ 3) بھائی: اس سے مراد حقیقی، پدری اورمادری بھائی بھی شامل ہیں، یہ بھی عورت کے لیے محرم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 4) بھانجے اوربھتیجے: عورت کے بھائی کے بیٹے اور ان کی اولاد در اولاد، اسی طرح عورت کی بہن کے بیٹے اور ان کی اولاد در اولاد ان میں شامل ہے۔ 5) چچا اور ماموں: ان دونوں کا اگرچہ قرآن کریم میں ذکر نہیں ہے تاہم انہیں والد کا قائم مقام قرار دیا گیاہے اور انہیں محارم میں شمار کیا گیا ہے۔ ٭ رضاعی محارم: اس سے مراد وہ محارم ہیں جو عورت کے لیے دودھ کی وجہ سے محرم بن جاتے ہیں، دودھ کا رشتہ بھی نسبی رشتہ کی طرح ہے، جس طرح نسبی محرم کے سامنے عورتوں کے لیے پردہ نہ کرنا مباح ہے، اسی طرح دودھ کی وجہ سے محرم بننے والے شخص کے سامنے اس کے لیے پردہ نہ کرنا مباح ہے، حدیث میں ہے: ’’اﷲ تعالیٰ نے دودھ کی وجہ سے بھی ان رشتوں کو حرام کر دیا ہے جنہیں نسب کی وجہ سے حرام کیا ہے۔‘‘ [2] کسی عورت کا دودھ پینے سے اس کا خاوند، باپ اور اس کے بیٹے بھائی قرار پاتے ہیں، لہٰذا ان رضاعی محارم سے بھی پردہ نہ کرنا مباح ہے، احادیث میں رضاعی چچا سے پردہ نہ کرنے کا ذکرملتا ہے۔ [3] ٭ سسرالی محارم: عورت کے لیے کچھ رشتہ دار ایسے ہوتے ہیں جو نکاح کی وجہ سے محرم بن جاتے ہیں اور ان سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتا ہے۔ مثلاً:
[1] ۲۴/النور: ۳۱۔ [2] مسند امام احمد، ص: ۱۳۱، ج۱۔ [3] صحیح بخاری، النکاح: ۵۱۰۳۔