کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 459
بوقت ضرورت پڑوسی سے کسی چیز کا تبادلہ کرنا سوال ہمارے معاشرہ میں کچھ عورتیں اپنی پڑوسن سے بوقت ضرورت آٹا لے لیتی ہیں، پھر چند دنوں کے بعد واپس کر دیتی ہیں، ایک عالم دین نے مسئلہ کیا ہے کہ ایسا کرنا سود ہے براہ کرم اس کی وضاحت کریں؟ جواب خریدوفروخت کرتے وقت اگر ایک ہی جنس کی دو اشیاء کا تبادلہ کیاجائے تو دو چیزوں کا خیال رکھا جائے۔ 1) کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ نہ ہو۔ 2) دونوں طرف سے نقد ہو۔ اگر کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ کیا یا ایک طرف ادھار اور دوسری طرف سے نقد تو ایسی دونوں صورتیں سود ہیں، جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سونا، سونے کے بدلے، چاندی، چاندی کے بدلے، گندم، گندم کے بدلے، جو، جو کے بدلے، کھجور، کھجور کے بدلے اورنمک، نمک کے بدلے یہ تمام اشیاء برابر، برابر اور نقد بنقد فروخت کی جائیں پھر جو زیادہ لے یا زیادہ دے تو اس نے سودی کاروبار کیا۔ سود لینے والا اور سود دینے والا دونوں گناہ میں برابر ہیں۔ [1] واضح رہے کہ تجارت میں سود کی دو قسمیں ہیں: 1) ربا الفضل: ایک جنس کی دو اشیاء کو کمی بیشی کے ساتھ فروخت کرنا۔ 2) ربا النسیئہ: اس میں کمی بیشی نہ ہو لیکن ایک طرف سے نقد اور دوسرے طرف سے ادھار کا معاملہ ہو، سود کی یہ دونوں اقسام خریدوفروخت سے متعلق ہیں، البتہ معاشرتی طور پر ایک گھر والا اپنے پڑوسی سے وقتی طور پر کوئی چیز لیتا ہے۔ مثلاً گندم، آٹا، گھی اور چینی وغیرہ اور پھر چند دنوں بعد میسر آنے پر اسے واپس کر دیتا ہے تو یقینا خریدوفروخت نہیںبلکہ تعاون باہمی کا ایک طریقہ ہے، اسے کسی صورت میںناجائز نہیں کہا جا سکتا۔ (واﷲ اعلم) اولاد کی خاطر دوسری عورت کا پیٹ کرایہ پر لینا سوال:میں جرمنی میں رہائش پذیر ہوں، میری بیوی کے رحم میں کوئی خرابی ہے، جس کی وجہ سے استقرار حمل نہیں ہوتا، مجھے کچھ دوستوں نے مشورہ دیا ہے کہ ہم میاں بیوی کے نطفہ امشاج کو کسی تیسری عورت کے رحم میں رکھ کر صاحب اولاد ہو سکتے ہیں، ہمارے ہاں اس طرح کی عورتیں دستیاب ہیں جو اپنا پیٹ کرایہ پر دیتی ہیں، اس طرح اولاد حاصل کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ قرآن وحدیث کے مطابق ہمیں آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔ جواب:سوال میں ذکر کردہ صورت حال جدید میڈیکل کی ترقی، مادہ پرستی اور حصول زر کے برگ وبار ہیں، یہ وبا ہندوستان میں بھی عام ہے، وہاں مجبور وبے بس عورتیں کسی غیر مرد کے نطفہ کی نشوونما کے لیے اپنے رحم کرایہ پر دیتی ہیں، اس طرح انہیں خاصی رقم مل جاتی ہے، ہمارے رجحان کے مطابق یہ کاروبار ناجائز اور حرام ہے جس کی حسب ذیل وجوہات ہیں:
[1] صحیح مسلم، المساقاۃ: ۱۵۸۴۔