کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 458
تیسرے مقام پر فرمایا کہ ﴿وَ فِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ ﴾[1] ’’ماں کو دودھ چھڑانے میں دو سال لگ گئے۔‘‘ ان آیات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے کیونکہ قرآن کریم نے حمل اور دودھ چھڑانے کی مجموعی مدت تیس ماہ بیان کی ہے پھر دودھ چھڑانے کی مدت دو سال کا ذکر کیا، اس مدت رضاعت کو مجموعی مدت سے منہا کریں تو باقی چھ ماہ حمل کی مدت رہ جاتی ہے، چنانچہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان آیات سے یہ استدلال کیا ہے کہ کم از کم مدت حمل چھ ماہ ہے جیسا کہ حضرت معمر بن عبداﷲ جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے قبیلہ کے ایک آدمی نے کسی عورت سے شادی کی تو اس نے شادی کے چھ ماہ بعد بچہ جنم دیا، اس کے خاوند نے اس امر کا ذکر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کیا تو انہوں نے اس عورت کو رجم کرنے کا حکم دیا، جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے مذکورہ بالا آیات سے استدلال کر کے مسئلہ کی وضاحت کی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔[2] ہمارا رجحان بھی یہ ہے کہ چھ ماہ کے بعد اگر کسی عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوجائے تو وہ بچہ حرامی نہیں بلکہ حلال ہی کا ہو گا اور اگر چھ ماہ سے پہلے پیدا ہوجائے تو وہ موجودہ خاوند کانہیں بلکہ کسی اور مرد کا ہو گا۔ زیادہ واضح الفاظ میں وہ لڑکا ولدالزنا ہو گا اور اس کا وراثت سے بھی کچھ تعلق نہیں ہو گا اور بچے کی ماں کو زنا کی حد پڑ سکتی ہے۔ موجودہ طبی تحقیقات کے مطابق حمل کی کم از کم مدت ۲۸ ہفتے قرار دی گئی ہے، اگر یہ تحقیق صحیح ہو تو بھی شریعت نے اس مسئلہ کی اہمیت ونزاکت کے پیش نظر اس مدت میں انتہائی احتیاط سے کام لیاہے اور حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ قرار دی ہے، چھ ماہ بعد بچہ پیدا ہو تو والد یا عورت کا خاوند اس کے نسب سے انکار کرنے کا مجاز نہ ہو گا۔ (واﷲ اعلم) عورت کا جانور ذبح کرنا سوال کیا عورت کوئی جانور ذبح کر سکتی ہے، اگر عورت ذبح کرے تو اس جانور کا گوشت کھایا جا سکتا ہے؟ جواب قرآن وحدیث میں عورت کے متعلق کوئی ممانعت نہیں ہے کہ وہ ذبح نہ کرے یا اس کا ذبیحہ ناجائز ہے، اس لیے عورت ذبح بھی کر سکتی ہے اور عورت کا ذبح کردہ جانور کھایا بھی جا سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک عورت نے پتھر کی دھار سے بکری کو ذبح کر دیا، جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے اسے کھانے کا حکم دیا۔ [3] اس حدیث سے دو مسائل کا پتہ چلا: 1) ذبح کرنے کے لیے صرف چھری ہی نہیں بلکہ ہر تیز دھار چیز سے ذبح کیا جا سکتا ہے۔ 2)عورت ذبح کر سکتی ہے اور اس کا ذبح کیا جانور استعمال کیا جا سکتا ہے۔(واللہ اعلم)
[1] ۳۱/لقمان: ۱۴۔ [2] تفسیر ابن کثیر، ص: ۱۶۶، ج۴۔ [3] صحیح بخاری، الوکالہ: ۲۳۰۴۔