کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 457
’’کیا تم شوہر والی ہو؟‘‘ اس نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے پوچھا: ’’کیا تو اس کی خدمت کرتی ہے؟‘‘ وہ کہنے لگی میں حسب استطاعت اس کی خدمت بجا لاتی ہوں، پھر آپ نے فرمایا: ’’تم نے اس امر پر غور کرنا ہے کہ خاوند کا مقام ومرتبہ تیرے مقابلہ میں کس قدر بلند ہے وہ تیرے لیے جنت ہے یا دوزخ ہے۔‘‘[1] اس حدیث سے خاوند کے مرتبے اور مقام کا پتہ چلتا ہے کہ اس کی اطاعت، فرمانبرداری اور خدمت گزاری سے جنت حاصل کی جا سکتی ہے جبکہ اس کی نافرمانی اور خدمت سے پہلو تہی دوزخ کا باعث ہے، لڑکی کو چاہیے کہ وہ نرمی کے ساتھ اپنے والد کو اپنے گھر کی آبادی کا احساس دلائے اور بلاوجہ ضد اور ہٹ دھرمی کے انجام سے آگاہ کرے۔ (واﷲ اعلم) عورت کا عورت کی محرم بننا سوال:کیا کوئی عورت دوسری عورت کے لیے محرم بن سکتی ہے یعنی اس کے ساتھ سفر کر سکتی ہے، حج پر جا سکتی ہے یا نہیں؟ کتاب وسنت کے حوالے سے جواب دیں۔ جواب:اسلام نے عورت کی عزت وناموس کی حفاظت کے لیے سفر میں محرم ساتھ ہونے کی شرط لگائی ہے تاکہ وہ اسے غلط مقاصد کے حامل لوگوں سے محفوظ رکھے۔ اہل علم نے محرم ہونے کے لیے پانچ شرائط لگائی ہیں۔ 1) مرد ہو، 2)مسلمان ہو، 3)بالغ ہو، 4) عاقل ہو، 5) وہ اس عورت کے لیے ابدی طور پرحرام ہو۔ واضح رہے کہ جن رشتہ داروں سے وقتی طور پر نکاح حرام ہے مثلاً بہنوئی اور پھوپھا وغیرہ وہ محرم نہیں ہیں۔ صورت مسؤلہ میں کوئی عورت کسی دوسری عورت کے لیے محرم نہیں بن سکتی، اس لیے کوئی عورت دوسری عورت کے ساتھ (بطور محرم) سفر نہیں کر سکتی اورنہ ہی حج پر جا سکتی ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’عورت، صرف محرم کے ساتھ ہی سفر کرے۔‘‘[2] ہمارے رجحان کے مطابق سفر خشکی کا ہو یا ہوائی یا بحری، سب کا ایک ہی حکم ہے۔ کسی عورت کو شرعی طور پر یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ محرم کے بغیر سفر کرے اور عورت، کسی عورت کی محرم نہیں ہو سکتی لہٰذا اس کے ساتھ سفر کرنا بھی ناجائز ہے۔ (واﷲ اعلم) نکاح کے ۶ ماہ بعد بچہ کو جنم دینا سوال اگر کوئی عورت نکاح کے چھ ماہ بعد بچے کو جنم دے تو شرعاً اس بچے کی کیا حیثیت ہے، کتاب وسنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں؟ جواب قرآن کریم نے ایک مقام پر حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت یکجا بیان کی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا١﴾[3] ’’اس کے حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے۔‘‘ دوسرے مقام پر مدت رضاعت بیان کی ہے کہ رضاعت کی پوری مدت دو سال ہے۔ [4]
[1] مسند امام احمد، ص: ۳۴۱، ج۴۔ [2] بخاری، الجہاد: ۳۰۰۶۔ [3] ۴۶/الاحقاف: ۱۵۔ [4] ۲/البقرۃ: ۲۳۳۔