کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 456
میں آپ کے میاں اکیلے ہیں تو نوکرانی کا گھر میں کام کاج بھی محل نظر ہے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ خلوت نہیں کرتا مگر تیسرا ان کے ساتھ شیطان ہوتا ہے۔‘‘[1] ان احادیث کی روشنی میں ہمیں اپنی گھریلو طرز معاشرت کے متعلق غور کرنا ہو گا، گھر میں کام کاج کرنے والی نوکرانی بھی عورت ہے اور اس پر وہی پابندیاں ہیں جو عام عورت کے لیے ہوتی ہیں لہٰذا نوکرانی کو بھی آپ کے میاں سے پردہ کرنا ہو گا اور ان دونوں کا اکیلے گھر میں اکٹھے رہنا بھی کئی ایک فتنوںکا پیش خیمہ بن سکتا ہے، بلکہ ایسے واقعات ہم روزانہ اخبارات میں پڑھتے ہیں جو ہماری ندامت اور ذلت کا باعث ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں ایسے حالات میں قوانین اسلام پر عمل کرنا ہو گا، اسی میں ہماری عافیت ہے۔ (واﷲ اعلم) باپ کی غیر منصفانہ بات ماننا سوال:میرے بھائی کے ہاں لڑکا پیدا ہوا، عقیقہ کے موقع پر مجھے والدین نے دعوت دی، لیکن اس دن میرے خاوند کسی کام کی وجہ سے مصروف تھے، اس لیے ہم اس دن دعوت میں شریک نہ ہو سکے، میرے والد محترم اس بات پر میرے خاوند سے بہت ناراض ہوئے اور مجھے ان سے علیحدگی اختیار کرنے پرزور دیتے ہیں جبکہ میرے اپنے خاوند سے تعلقات بہت اچھے ہیں اور مجھے کوئی تکلیف نہیں، اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ بہت پریشان ہوں، ایک طرف خاوند ہیں تو دوسری طرف میرے والد محترم ہیں دونوں کا کہا ماننا ضروری ہے۔ جواب:صورت مسؤلہ میں والد محترم کا رویہ عدل وانصاف کے منافی ہے، خاص طور پر لڑکیوں کے معاملہ میں تو انہیں بہت بردباری اور تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، وجہ نزاع بھی اتنی بڑی نہیں ہے کہ لڑکی کو خاوند سے علیحدگی اختیار کرنے کا مشورہ دیا جائے بلکہ اسے مجبور کیا جائے، ایسے حالات میں لڑکی کا اپنے والد محترم کی بات مان کر گھر بیٹھ رہنا یا اپنے خاوند سے علیحدگی اختیار کرنا اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی ہے، جس سے ہمیں اجتناب کرنا چاہیے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کام میں اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی ہو، اس کی بجاآوری کے لیے کسی کی بات کو نہ مانا جائے بلکہ اس کا انکار کر دیا جائے۔‘‘ [2] ہمارے رجحان کے مطابق ایسے حالات میں والد محترم کی بات کو نہ مانا جائے بلکہ اپنے خاوند کی فرمانبرداری اور اطاعت گزاری کی جائے ویسے بھی شادی کے بعد عورت اپنے خاوند کا کہا ماننے کی پابند ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میں نے کسی کو حکم دینا ہوتا کہ وہ کسی انسان کو سجدہ کرے تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔‘‘ [3] ایک روایت کے مطابق اس کی وجہ بایں الفاظ بیان فرمائی کہ خاوند کا عورت پر بہت بڑا حق ہے۔ [4] شریعت کی نظر میں شوہر کی اطاعت کا حق والدین کی اطاعت سے بڑھ کر ہے چنانچہ سیدنا حصین رضی اللہ عنہ کی پھوپھی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کسی کام کے لیے حاضر ہوئی، جب وہ اپنے کام سے فارغ ہوئی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا:
[1] مسند امام احمد، ص: ۱۸، ج۱۔ [2] صحیح بخاری، الاحکام: ۷۱۴۴۔ [3] ابو داود، النکاح: ۲۱۴۰۔ [4] السنن الکبریٰ للنسائی عشرۃ النساء: ۹۱۴۷۔