کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 455
ہمراہ لے جاتی ہیں، کیا چھوٹے بچے محرم کے قائم مقام ہو سکتے ہیں؟ کیا تبلیغی سفر کرنا بھی درست نہیں ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں تفصیل سے آگاہ کریں۔ جواب:کسی خاتون کا محرم کے بغیر سفر کرنا جائز نہیں ہے، خواہ اکیلی ہو یا جماعت، دوران سفر محرم کا ساتھ ہونا ضروری ہے، یہ سفر خواہ کسی دنیاوی غرض کے لیے ہو یا اس سے مقصود تبلیغ کرنا ہو، سرپرست اور محرم حضرات کا اس سلسلہ میں تساہل اور چشم پوشی کرنا درست نہیں، اس سے کئی ایک خرابیاں پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، عورت خواہ بڑی عمر کی ہی کیوں نہ ہو، اس کے لیے بھی جائز نہیں ہے کہ اپنے فیملی ڈرائیور کے ساتھ تنہا سفر کرے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہیں ہوتا مگر ان دونوں میں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔‘‘[1] جو حضرات اپنی محرم خواتین کے لیے اس امر کو پسند کرتے ہیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیوث جیسے بدترین الفاظ سے یاد کیا ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق اگر کسی خاتون کے ساتھ اس کے نابالغ بچے بھی ہوں تب بھی محرم کے بغیر اس کا سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ بچے کسی صورت میں محرم کے قائم مقام نہیں ہو سکتے، جس شخص کے ذریعے ممنوعہ خلوت ختم کی جا سکتی ہے اس کا بڑا ہونا ضروری ہے۔ اس بنا پر کم سن کا موجود ہونا کافی نہیں ہے۔ خواتین کا یہ تصور کہ اگر انہوں نے اپنے ساتھ کسی بچے کو لے لیا ہے تو خلوت ختم ہو گئی بہت خطرناک اور انتہائی غلط ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’اگر کوئی اجنبی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ کسی تیسرے محرم شخص کے بغیر خلوت کرتا ہے تو باتفاق علما یہ فعل حرام ہے، اس طرح اگر دونوں کے ساتھ کوئی ایسا شخص ہو جس سے اس کی کم سنی کی وجہ سے شرم وحیا نہ کی جاتی ہو تو اس کے ذریعے ممنوعہ خلوت ختم نہیں ہو سکتی۔‘‘[2] خواتین کی جماعت کا اکیلے ڈرائیور کے ساتھ تبلیغی سفر کرنا بھی صحیح نہیں ہے اور مدرسہ کا ناظم بھی اس سلسلہ میں محرم نہیں بن سکتا، خواہ وہ بڑی عمر کا ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ جس شخص سے نکاح ہو سکتا ہے وہ محرم نہیںہو سکتا اس بنا پر عورت کا اجنبی مرد یا فیملی ڈرائیور کے ساتھ گاڑی میں سفر کرنا کسی بھی جگہ خلوت اختیار کرنے سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ وہ عورت کو شہر کے اندر یا شہر کے باہر اس کی رضامندی یا اس کی رضا کے بغیر کہیں بھی لے جا سکتا ہے، اس سے جو خرابیاں پیدا ہوں گی، وہ مجرد خلوت سے زیادہ خطرناک اور سنگین ہیں،لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (واﷲ اعلم) نوکرانی کا گھر میں کام کرنا سوال:ہمارے گھر میں ایک نوکرانی کام کاج کرتی ہے، بعض اوقات میں گھر میں نہیں ہوتی، صرف میاں ہوتے ہیں اور وہ نوکرانی گھرمیںکام کرتی رہتی ہے، اس کے متعلق کتاب وسنت کا کیا حکم ہے؟ براہ کرم ہماری راہنمائی فرمائیں؟ جواب:گھرمیں کام کرنے والی نوکرانی پر وہی احکام نافذ ہیں جو عام عورتوں کے لیے ہیں، وہ غیر محرم لوگوں سے پردہ کرے گی اور آپ کے میاں اس کے لیے غیر محرم ہیں، اس کے سامنے نوکرانی کا اپنی زیب وزینت کا اظہار جائز نہیں ہے بلکہ اگر گھر
[1] مسند امام احمد، ص: ۱۸، ج۱۔ [2] شرح نووی، ص: ۴۳۴، ج۱۔