کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 453
اندیشہ نہیں لہٰذا ایڈز کی شکار ماں اپنے تندرست بچے کو دودھ پلا سکتی ہے۔ شریعت میں اس کے متعلق کوئی ممانعت نہیں ہے۔ اگر طبی طور پر کوئی ممانعت نہیں تو وہ اپنے بچے کی پرورش کر سکتی ہے اور اسے دودھ بھی پلا سکتی ہے۔ (واﷲ اعلم) بسوں میں گداگری کرنا سوال:بسوں اور گاڑیوں میں جوان لڑکیاں بھیک مانگتی ہیں، ان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ پہلے کارڈ اور ٹافیاں تقسیم کرتی ہیں پھر کارڈ اکٹھے کرتے وقت بھیک مانگتی ہیں، کیا ان کے ساتھ تعاون کرنا جائز ہے، انہیں روپیہ پیسہ دینے سے ثواب ہو گا؟ جواب:بسوں اور گاڑیوں میں جو جوان لڑکیاں بھیک مانگتی ہیں، یہ دراصل بے حیائی اور بے غیرتی کی اشاعت کرتی ہیں، ان کے صحت مند بھائی یا باپ یا خاوند گھر میں ہوتے ہیں اور وہ ان جوان لڑکیوں کو مانگنے کے لیے بھیج دیتے ہیں یہ ان کا پیشہ ہے بلکہ اس کی آڑ میں ناگفتہ بہ واقعات کا ارتکاب کیا جاتا ہے، ان کے ساتھ تعاون کرنا برائی اور فحش کاری کی اشاعت کرنا ہے، حضرت جابر بن عبداﷲرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے سوال کیا حالانکہ اسے سوال کرنے کی ضرورت نہ تھی، اسے قیامت کے دن اس حالت میں اٹھایا جائے گا کہ اس کے چہرے پر خراشیں ہوں گی۔‘‘ [1] حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص میری ایک بات قبول کرے میں اس کے لیے جنت کا ذمہ لیتا ہوں میں نے عرض کیا میں قبول کرتا ہوں، آپ نے فرمایا: لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا۔ اس ارشاد نبوی کے بعد حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی حالت یہ تھی کہ وہ اپنی سواری پر سوار ہوتے اور ان کا کوڑا گر جاتا تو وہ کسی سے یہ نہ کہتے کہ میرا کوڑا مجھے پکڑا دو بلکہ خود سواری سے اتر کر اسے اٹھاتے[2]بہرحال بسوں اور گاڑیوں میں پیشہ ور قسم کے بھکاری آتے ہیں خاص طور پر نوجوان لڑکیاں گداگری کی آڑ میں بے حیائی پھیلاتی ہیں، ان سے تعاون نہیں کرنا چاہیے۔ ان سے تعاون کرنا بے حیائی کو فروغ دینا ہے لہٰذا ایک مسلمان کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (واﷲ اعلم) غسل جنابت سے پہلے حیض آنا سوال:ایک عورت کے ذمے غسل جنابت کرنا تھا، لیکن اسے حیض آگیا، اب اس کے لیے کیا حکم ہے؟ جواب:اگر کسی مرد یا عورت نے غسل جنابت کرنا ہو تو بلا وجہ تاخیر کرنا مناسب نہیں ہے، اس حکمی نجاست کو جس قدر ممکن ہو، جلدی دور کر لیا جائے، لیکن اگر کسی مجبوری کی وجہ سے کوئی عورت غسل جنابت نہیں کر سکی، اس دوران اسے حیض آگیا تو اب الگ سے غسل جنابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے اگر وہ نفسیاتی طور پر اپنا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی ہے تو الگ بات ہے تاہم پیش آمدہ صورت حال میں اسے غسل جنابت کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی فائدہ ہے، جب حیض سے فارغ ہو تو دونوں کے لیے ایک ہی غسل کافی ہو گا، حیض کی کثافت، جنابت سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ جنابت کی حالت میں روزہ رکھنے کی اجازت ہے جبکہ بحالت حیض روزہ رکھنے کی ممانعت ہے، ہمارے رجحان کے مطابق اسے الگ سے غسل جنابت کے تکلف کی ضرورت نہیں بلکہ ایام سے فراغت کے بعد ایک ہی غسل کافی ہو گا۔ (واﷲ اعلم)
[1] صحیح الترغیب، نمبر: ۸۰۰۔ [2] مستدرک حاکم، ص: ۴۱۲، ج۱۔