کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 450
﴿ لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِيْۤ اَيْمَانِكُمْ وَ لٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَيْمَانَ١ۚ فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِيْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِيْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ١ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰثَةِ اَيَّامٍ١ ذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَيْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ١ وَ احْفَظُوْۤا اَيْمَانَكُمْ١﴾[1] ’’اﷲ تم سے تمہاری لغو قسموں کے متعلق مواخذہ نہیں کرے گا لیکن جن قسموں کو تم نے مضبوط کر کے اٹھایا ہے، ان پر تم سے ضرور مواخذہ کرے گا۔ اس کا کفارہ دس مساکین کو اوسط درجے کا کھانا دینا ہے جو تم اپنے گھروں میں کھاتے ہو یا انہیں لباس دینا یا غلام آزاد کرنا ہے لیکن جو شخص ان کی طاقت نہ رکھے تو اس کے ذمے تین دن کے روزے ہیں، یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم اٹھا لو اور اپنی قسم کی حفاظت کیا کرو۔‘‘ اس حدیث اور آیت کے پیش نظر صورت مسؤلہ میں قسم اٹھانے والے کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کو میکے جانے کی اجازت دے اور قسم توڑ دے اور پھر آیت میں مذکور اس کا کفارہ ادا کر دے، انسان کو چاہیے کہ وہ قسم اٹھاتے وقت خوب سوچ وبچار کرے، یہ کوئی بچوں کا کھلونا نہیں ہے کہ جب چاہے اسے توڑ لے اور جب چاہے اسے جوڑ لے۔ (واﷲ اعلم) تنہائی میں دم کرنا سوال:ہمارے گاؤں میں ایک مولانا صاحب دم کرتے ہیں، بعض اوقات عورتوں کی حالت کے پیش نظر انہیں کچھ دنوں کے لیے اپنے گھر میں بھی ٹھہراتے ہیں اور دم کرتے وقت تنہا رکھتے ہے، ایسے حالات میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ جواب:شرعی طور پر کسی بھی عورت سے غیر محرم کے لیے تنہائی اختیار کرنا حرام ہے خواہ وہ خلوت قرآن کریم کا دم کرنے کے لیے ہی کیوں نہ ہو، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’خبردار! جو آدمی کسی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرتا ہے ان دونوں میں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ ‘‘[2] اس حدیث کے پیش نظر کسی بھی مرد کو غیر عورت کے ساتھ خلوت اختیار کرنا حرام ہے، صورت مسؤلہ میں سب سے زیادہ سنگین جرم دم کرنے والے کا غیر عورت کو اپنے گھر میں ٹھہرانا ہے، ایسا کرنا توبرائی کو دعوت دینا ہے اور فساد پھیلانے کے وسائل سے ہے، ہر مسلمان مرد اور عورت کو ایسے اقدام سے پرہیز کرنا چاہیے جس سے اس کی عزت وناموس پر حرف آتا ہو، اگر دم کے بغیر چارہ نہ ہو تو محرم کی موجودگی میں دم کیا جائے اور غیر عورت کو اپنے گھر ٹھہرانے کا تکلف نہ کیا جائے۔ (واﷲ اعلم) عورت کا عورتوں کو امامت کرانا سوال:کیا گھر میں عورت، دوسری عورتوں کی جماعت کرا سکتی ہے، اگر جماعت کرانا ہو تو کیا اس کے لیے اذان اور تکبیر کہی جائے یا تکبیر کہہ کر جماعت کرانا کافی ہو گا؟ جواب:عورتوں کے لیے اذان کہنا مشروع نہیں ہے، یہ امور صرف مردوں کے ساتھ مخصوص ہیں، البتہ تکبیر کہہ کر
[1] ۵/المائدۃ: ۸۹۔ [2] ترمذی، الفتن: ۲۱۶۵۔