کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 448
میرا جسم بھاری ہو گیا تھا اورمیں گزشتہ واقعہ کو بھی بھول گئی تھی، آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آگے بھیج دیا پھر آپ نے میرے ساتھ دوڑ لگائی تو آپ آگے بڑھ گئے۔ اس پر آپ نے فرمایا: ’’یہ سبقت، اس جیت کے بدلے میں ہے۔‘‘[1] یہ واقعہ آبادی سے باہر کسی میدانی علاقہ میں پیش آیا، اس سے اچھے انداز میں معاشرتی زندگی کی تکمیل مقصود تھی تاکہ میاں بیوی کے درمیان محبت والفت اور یگانگت کا رشتہ مزید مضبوط ہو، خاوند کے لیے بیوی کے ساتھ اس طرح کامقابلہ کرنا اب بھی جائز ہے بشرطیکہ وہ تنہائی میں ہو اور لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو، نیز اس سے کسی فتنہ کو ہوا نہ ملتی ہو۔ لیکن اس واقعہ سے برسر عام مقابلوں کا جوازکشید کرنا انتہائی محل نظر ہے۔ (واﷲ اعلم) بیوی کے فرائض سوال:ایک عالم دین نے دوران درس یہ مسئلہ بیان کیا کہ عورت کے لیے خاوند کی خدمت کرنا قطعاً واجب نہیں ہے، اس مسئلہ نے عورتوں میں ایک عجیب ساہیجان پیدا کر دیا ہے،ازراہ کرم وضاحت فرما دیں۔ جواب:ہمارے علم کے مطابق یہ مسئلہ صحیح نہیں ہے، اسلامی معاشرہ کا یہ عرف ہے کہ بیوی اپنے خاوند کی عمومی خدمات بجا لایا کرتی ہے مثلاً کھانا پکانا، کپڑے دھونا، گھر کی صفائی کرنا وغیرہ۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی خدمت کی جس کا تذکرہ بعض احادیث میں ملتا ہے، اسی طرح حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی اپنے شوہر نامدار حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں مصروف رہتی تھیں۔ لہٰذا مذکورہ مسئلہ مغربی تہذیب کا حصہ تو ہو سکتا ہے اسلامی طرززندگی میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ (واﷲ اعلم) عورت کا مردوں کا امام بننا سوال :میں نے قرآن حفظ کیا ہوا ہے اور دینی تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ ہوں جب کہ میرا خاوند دین کے معاملہ میں واجبی سا علم رکھتا ہے، کیا میں گھرمیں اس کی امامت کرا سکتی ہوں، کیونکہ حدیث میں ہے کہ لوگوں کی امامت وہ شخص کرائے جو کتاب اﷲ کا زیادہ قاری ہو۔ جواب :عورت، مردوں کی امام نہیں بن سکتی چاہے خواہ وہ اس کا خاوند، بیٹا یا بھائی ہو۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی جس نے اپنا معاملہ کسی عورت کے سپرد کر دیا ہو۔‘‘[2] عورت اگر مرد سے زیادہ پڑھی لکھی ہو تو بھی مردوں کی امامت کی اہل نہیں ہے ہاں وہ گھر میں عورتوں کی امامت کرا سکتی ہے جیسا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کرا سکتی ہے[3] کیونکہ وہ قرآن کریم کی حافظہ تھیں جیسا کہ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے۔[4] امامت کراتے وقت اسے عورتوں کے آگے نہیں بلکہ درمیان میں
[1] مسند امام احمد، ص: ۲۶۴، ج۶۔ [2] صحیح بخاری، المغازی: ۴۴۲۵۔ [3] ابو داود، الصلوٰۃ: ۵۹۱۔ [4] صحیح ابن خزیمہ، ص: ۸۹، ج۳۔