کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 444
اگر اولاد میں سے کوئی بیمار ہے یا حصول علم میں کوشاں ہے تو ایسی وجوہات کی بنا ان پردوسروں سے زیادہ خرچ کیا جا سکتا ہے، ہمارے رجحان کے مطابق عدل ومساوات کی دو اقسام ہیں: ٭ ایک قسم تو وہ ہے کہ کچھ بچے اپنی صحت وبیماری میں خرچہ کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں، اس قسم کی ضرورت کے متعلق عدل کا تقاضا یہ ہے کہ ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق دیا جائے، کم اور زیادہ ضرورت مند کے درمیان کوئی فرق نہ کیا جائے۔ ٭ ایک قسم یہ ہے کہ ضروریات مشترک ہیں یعنی عطیہ، خرچہ اور شادی وغیرہ تو اس قسم میں کمی وبیشی کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن تمام بچوں پر مساوات کے ساتھ خرچ کیا جائے۔ لہٰذا اگر کوئی بچہ مقروض ہے اور اس کے مالی حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں تو اگر باپ اپنے بیٹے کا قرضہ اتارنے میں اس کا تعاون کرتا ہے تو ان شاء اﷲ ایسا کرنا مساوات کے خلاف نہیں ہے، امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس پر مؤاخذہ نہیں کرے گا۔ (واﷲ اعلم) بچے کا کھیت کو آ گ لگانا سوال:ایک بچے نے دن کے وقت گندم کے کھلیان کو آگ لگا دی۔ اس کے آگ لگانے میں کسی کے مشورے کو دخل نہیں اس سے کافی نقصان ہوا ہے، کیا اس نقصان کی تلافی بچے کے ورثاء کو کرنا ہو گی یا نہیں؟ نقصان ادا کرنے کی صورت میں پورے نقصان کے ذمہ دار ہوں گے یا کچھ نقصان ادا کرنا ہو گا؟ جواب:شریعت اسلامیہ میں بعض افراد کو حقوق و واجبات کی ادائیگی میں مرفوع القلم قرار دیا گیا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ دیوانہ ہوش آنے تک، بچہ بالغ ہونے تک اور سونے والا بیدار ہونے تک مرفوع القلم ہیں [1]محدثین کرام نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بچہ مؤاخذہ کے لحاظ سے مرفوع القلم ہے اگر نیکی اور ثواب کے کام کرتا ہے تو اسے محروم نہیں کیا جائے گا البتہ جو حقوق انسانوں سے متعلق ہیں اس کا معاملہ کچھ الگ ہے اگرچہ بچے کو باز پرس نہیں ہو گی۔ تاہم اس کے ورثاء نقصان کے ذمہ دار ہوں گے چنانچہ فقہا نے صراحت کی ہے کہ بچہ میں اہلیت ادا معدوم معلوم ہوتی ہے، اس لیے اس کے اقوال و افعال پر کوئی شرعی مواخذہ نہیں ہو گا او رنہ ہی معاملات میں اس کے تصرفات کا اعتبار کیا جائے گا، زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ بچہ جب کسی کا نقصان کرے گا تو مالی لحاظ سے وہ قابل مواخذہ ہے البتہ بدنی لحاظ سے اسے سزا وغیرہ نہیں دی جائے گی مثلاً بچہ کسی کو قتل کر دیتا ہے یا کسی کے مال کو نقصان پہنچاتا ہے تو مقتول کی دیت اور مال کی تلافی بہر صورت کرنا ہو گی لیکن اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ [2] اس طرح بچے کے مال میں زکوٰۃ بھی عائد ہوتی ہے جیسا کہ محدثین کرام نے لکھا ہے، اس بنا پر صورت مسؤلہ میں جو نقصان ہوا ہے وہ بچے کے ورثاء ادا کریں گے اور شرعی طور پر یہ ان کی ذمہ داری ہے، بچے کے مرفوع القلم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے مواخذہ نہیں ہو گا اور نہ ہی اس پر کوئی اور ذمہ داری عائد ہو گی البتہ مالی نقصانات کی تلافی اس کے ورثاء پر عائد ہوتی ہے، وہ بھی پورا پورا نقصان ادا کرنا ہو گا۔ (واللہ اعلم)
[1] مسند امام احمد،ص: ۱۴۴،ج۶۔ [2] علم اصول الفقہ،ص: ۱۳۷۔