کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 442
کیوں نہیں کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا: ’’میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔‘‘ [1] جب بیعت کے وقت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کسی عورت کے ہاتھ سے نہیں لگا تو عام آدمی کے لیے عورتوں کے سر پر ہاتھ پھیرنا کیونکر جائز ہو سکتا ہے؟ (ب) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیاہے کہ اﷲ کی قسم! رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو چھوا تک نہیں۔ [2] جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جو خیرالبشرہیں اور قیامت کے دن اولاد آدم کے سردار ہوں گے، ان کے مبارک ہاتھوں نے کسی عورت کے ہاتھ کو چھوا تک نہیں تو دوسرے غیرمحرم مردوں کے لیے کس طرح اجنبی عورتوں کے سر پر ہاتھ پھیرنا جائز کیسے ہو سکتا ہے؟ (ج) جو عورت مرد کے لیے حلال نہیں ہے اسے ہاتھ لگانا بہت سنگین جرم ہے جیسا کہ حدیث میں ہے حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر آدمی کے سر میں نوک دار لوہے سے سوراخ کر دیاجائے تو یہ اس بات سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت کو ہاتھ لگائے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے۔ [3] امام منذری رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو بیہقی اور طبرانی کے حوالہ سے بیان کیا ہے اور طبرانی کے راویوں کو صحیح کے راوی قرار دیا ہے، اسی طرح علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو امام رویانی کے حوالہ سے بیان کیا ہے اور اس پر صحیح ہونے کا حکم لگایا ہے۔ [4] اس حدیث کی رو سے بھی اجنبی عورت کو ہاتھ لگانے کی حرمت ثابت ہوتی ہے، البتہ کسی ناگہانی ضرورت کے پیش نظر عورت کوہاتھ لگانے میں چنداں حرج نہیں مثلاً بیماری کی حالت میں ڈاکٹر یا طبیب کا نبض دیکھنا یا مکان کو آگ لگنے کی صورت میں اسے پکڑ کر مکان سے باہر نکالنا، لیکن پیار دیتے وقت اس کے سر کو ہاتھ لگانا کوئی حقیقی ضرورت نہیں۔ جو حضرات بزرگوں کے لیے اجنبی عورت کو پیار دینے کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں،ان کے پاس کوئی نقلی دلیلیں نہیں ہے البتہ وہ عقلی اعتبار سے کہتے ہیں کہ یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے جو معاشرہ کے رسم ورواج سے تعلق رکھتا ہے چونکہ شریعت نے اس سے منع نہیں فرمایا، اس لیے ایسا کرنا جائز ہے، پھر ایسا کرنے سے تبلیغ وغیرہ کا بھی موقع ملتا ہے کہ اگر وہ ننگے سر ہو تو سمجھایا جا سکتا ہے۔ شریعت نے معاشرہ میں رائج، معروف، کو بہت حیثیت دی ہے اس لیے اسے جائز ہونا چاہیے پھر ایسے موقع پر کسی قسم کے منفی جذبات ابھرنے کا موقع بھی نہیں ہوتا جن کے پیش نظر اسے ممنوع قرار دیاجاسکے، اگر ایسا اندیشہ ہو تو اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی موخرالذکر حدیث کا تعلق ایسے حالات سے ہے جب ہاتھ لگانے والا دل کا کوڑھا اور نیت میں فتور رکھتا ہو۔ ہم نے انتہائی دیانتداری کے ساتھ فریقین یعنی مانعین اور مجوزین کے دلائل قارئین کے سامنے رکھ دیے ہیں، ہمارا رجحان یہ ہے کہ تقویٰ اور پرہیزگاری کے پیش نظر اس سے اجتناب کیا جائے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے عمررسیدہ عورت کو پردہ کے سلسلہ میں کچھ نرمی دی ہے اس کے باوجود فرمایا ہے کہ اگر وہ اس نرمی کو استعمال کرنے سے پرہیز کریں تو یہی بات ان کے حق میں بہتر ہے۔[5] البتہ مجوزین حضرات کے موقف کو بالکل نظر اندازنہیں کیا جا سکتا اس کے پیش نظر اگر کوئی برخوردار عمر رسیدہ خاتون کے سامنے سر جھکا دے یا کوئی برخورداری اپنے کسی بزرگ کے
[1] مسند امام احمد، ص: ۳۵۷، ج۶۔ [2] صحیح بخاری، الشروط: ۲۷۱۳۔ [3] الترغیب والترہیب، ص: ۳۹، ج۳۔ [4] الاحادیث الصحیحۃ، حدیث نمبر: ۲۲۶۔ [5] ۲۴/النور: ۶۰۔