کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 440
پڑھو جیسا کہ تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘[1] لیکن اگر کسی عذر کی بنا پر خطبہ ایک عالم دین دیتا ہے اور جماعت کوئی دوسرا شخص کراتا ہے تو جائز ہے اور نماز میں کوئی خرابی نہیں ہو گی، اگر کوئی عذر کے بغیر ایسا کرتا ہے تو سنت کی خلاف ورزی کا گناہ ضرور ہو گا البتہ نماز ہو جائے گی لیکن اسے معمول بنانا کسی صورت میں صحیح نہیں ہے کیونکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کا معمول ہے کہ جو خطبہ دیتا وہی نماز پڑھاتا۔ (واﷲ اعلم) رہائشی پلاٹ پر زکوٰۃ سوال:جو پلاٹ ذاتی رہائش کے لیے لیا جائے کیا اس کی مالیت پر زکوٰۃ دینا ضروری ہے، اسی طرح اگر کسی نے تجارت کی غرض سے پلاٹ لیا۔ کیا اس پر زکوٰۃ قیمتِ خرید کے حساب سے دی جائے گی؟ وضاحت کریں۔ جواب ذاتی ضرورت کے لیے جو چیزیں خریدی جائیں ان پر زکوٰۃ نہیں ہے ، ہاں زیورات اگر ذاتی ضرورت یا استعمال کے لیے ہوں۔ ان میں زکوٰۃ دینا ضروری ہے، اس کے علاوہ کسی ذاتی چیز میں زکوٰۃ نہیں ہے، اگر کسی نے ذاتی ضرورت کے لیے پلاٹ لیا پھر اس نے فروخت کرنے کی نیت کر لی تو اس پر زکوٰۃ دینا ہو گی، البتہ گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ نہیں دے گا۔ کیونکہ اس وقت نیت ذاتی استعمال کی تھی البتہ جب سے تجارت کی نیت کی تو اس پر زکوٰۃ پڑے گی، اور یہ زکوٰۃ بھی ایک سال گزرنے کے بعد واجب الاداء ہو گی۔ نیز اس پر زکوٰۃ موجودہ مالیت کے مطابق ادا کی جائے گی۔ قیمت خرید کا اعتبار نہیں ہو گا مثلاً جب خریدا تو اس کی قیمت 50000ہزار روپیہ تھی۔ لیکن جب زکوٰۃ ادا کرنے کا وقت ہوا تو اس کی مالیت ایک لاکھ روپیہ ہو گئی تو اس صورت میں اسے ایک لاکھ روپیہ سے زکوٰۃ ادا کرنا ہو گی۔ اس طرح ہر سال موجود مالیت کے حساب سے زکوٰۃ دی جائے، اگر کسی نے تجارتی غرض سے پلاٹ خریدا بعد میں اسے ذاتی رہائش کے لیے رکھ لیا تو اس وقت اس کی مالیت میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہے بہرحال پلاٹ وغیرہ کی زکوٰۃ کا معاملہ اس کی نیت پر منحصر ہے۔(واﷲ اعلم) سر پر پیار دینا سوال:ہمارے معاشرہ میں بزرگ حضرات چھوٹی بچیوں کے سر پر پیار دیتے ہیں، اس پر کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ شرعاً ایسا کرنا جائز نہیں ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ جواب:محبت بھرے جذبات سے خیروبرکت کی دعائیں دیتے ہوئے بزرگوں کا بچوں اور بچیوں کے سر پر ہاتھ پھیرنے کو ہمارے معاشرہ میں ’’پیار‘‘ کہا جاتا ہے۔ دین اسلام نے اسے مشروع قرار دیا ہے چنانچہ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میری خالہ مجھے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئیں، انہوں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا یہ بھانجا ہے، تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے خیروبرکت کی دعا فرمائی[2] امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر
[1] صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ۔ [2] صحیح بخاری، المرضی: ۵۶۷۰۔