کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 44
عقیدہ کی خرابی لازم آتی ہے۔ 3) تصاویر کے اوپر نیچے صلی اللہ علیہ وسلم نہیں لکھا گیا بلکہ ’’سلطان دو جہاں‘‘ کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم لکھا گیا ہے، کوئی بھی صاحب شعور جوتوں کے اوپر یا نیچے صلی اللہ علیہ وسلم لکھنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ 4) ایسے کارڈ پر دعوت نامہ بنا کر تقسیم کرنا درست نہیں ہے اور نہ ہی اسے عام کرنا جائز ہے کیونکہ ایسا کرنے سے بدعات کی اشاعت ہوتی ہے۔ 5) جس عالم دین نے ثواب سمجھ کر اس کی اشاعت کی ہے، اس کا یہ اقدام انتہائی محل نظر ہے۔ (واللہ اعلم) گستاخِ رسول پر صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا سوال:ایک اشتہار میری نظر سے گزرا اس کی عبارت میں ’’گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ لکھا ہوا تھا حالانکہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے لیے ہیں لیکن اس مقام پر ہر گستاخ رسول کے ساتھ معلوم ہوتے ہیں، ہم کئی جگہ محمد کا لفظ استعمال کرتے ہیں مثلاً محمد علی وغیرہ تو اس کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ استعمال نہیں کرتے کیونکہ یہاں محمد سے مراد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی نہیں بلکہ کوئی شخصیت مراد ہے تو پھر گستاخ رسول کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا کیونکر درست ہو سکتا ہے؟ وضاحت فرمائیں۔ جواب:اسلام کی بنیادی تعلیمات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کو جزو ایمان قرار دیا گیا ہے اور آپ سے بغض و عداوت کو حرام کہا گیا ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جزو ایمان ہے۔‘‘ پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے کوئی ایمان دار نہیں ہو سکتا تاآنکہ میںاسے اس کے والدین اور اولاد سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔‘‘ [1] حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میری شخصیت اسے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو۔‘‘ [2] ان احادیث کے پیش نظر ایک مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کا تصور بھی نہیں کر سکتا، بلکہ آپ کی محبت ہر مسلمان کے رگ و ریشہ میں خون کی طرح جاری و ساری ہے، حقیقی مسلمان کسی صورت میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتا چہ جائیکہ وہ خود اس کا مرتکب ہو، صورت مسؤلہ میں غلط فہمی کی بنا پر صلی اللہ علیہ وسلم کے لاحقہ کو ’’گستاخ‘‘ کے ساتھ ملا دیا گیا ہے حالانکہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق گستاخ سے نہیں بلکہ رسول سے ہے گویا عبارت اس طرح ہے ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ‘‘ اس سلسلہ میں جو مثال دی گئی ہے وہ اس پر منطبق نہیں ہوتی کیونکہ لفظ’’محمد علی‘‘ میں ایک شخص کا نام ہے جو یقیناً رسول نہیں، اس لیے اس کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی ضرورت نہیں جبکہ گستاخ رسول میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اس لیے لاحقہ کے طور پر اس کے بعد صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ لکھا جاتا ہے۔ اس انداز میں کوئی گستاخی والی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کوئی بے ادبی کا پہلو پایا جاتا ہے۔
[1] صحیح بخاری، الایمان: ۱۴۔ [2] صحیح بخاری، الایمان: ۱۴۔