کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 435
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’تو خود اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔‘‘ [1] سوال میں شاید اسی حدیث کی طرف اشارہ ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص اپنے باپ کو لے کر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس سے اپنے قرض کی واپسی کا تقاضا کرنے لگا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔ [2] باپ کو اپنی ذاتی ضروریات کے لیے بیٹے کا مال لینا جائز ہے خواہ وہ پلاٹ کی شکل میں ہو۔ بصورت دیگر باپ اپنے بیٹے کے مال کو بلا اجازت لینے کا مجاز نہیں ہے۔ (واﷲ اعلم) دو دعوے داروں کے مابین فیصلہ کرنا سوال ایک چیز کے متعلق دو شخص دعوے دار ہیں اور دونوں کے پاس شواہد موجود ہیں، ایسے حالات میں شرعی فیصلہ کیسے کیا جائے گا؟ جواب اگر ایک چیز کے متعلق دو دعوے دار ہوں اور دونوں کے پاس شواہد ہوں یا دونوں اپنا دعویٰ ثابت نہ کر سکتے ہوں تو ایسی صورت میں فقہاء کے دو مؤقف ہیں، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ دونوں کے پاس دلائل ہوں یا نہ ہوں، فیصلے کی صورت یہ ہو گی کہ جس چیز کے متعلق دعویٰ کیا گیا ہے اسے دونوں کے درمیان نصف نصف تقسیم کر دیا جائے گا، اس کی دلیل حسب ذیل واقعہ ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں دو آدمیوں نے ایک اونٹ کے متعلق دعویٰ کیا پھر اس پر دونوں نے دو، دو گواہ پیش کر دئیے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دونوں کے درمیان نصف نصف تقسیم کر دیا۔ [3]اسی طرح ایک اور حدیث ہے کہ ایک چیز کا دعویٰ کرنے والے دونوں آدمیوں کے پاس نہ تو کوئی ثبوت تھا اورنہ ہی وہ کوئی گواہ پیش کر سکے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کو دونوںکے درمیان نصف نصف تقسیم کر دیا۔[4] لیکن ان دونوں روایات کو علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔[5] ٭ اس سلسلہ میں دوسرا موقف یہ ہے کہ مدعیان کے درمیان قرعہ اندازی کی جائے گی۔ جس کے نام قرعہ نکل آئے گا وہ قسم اٹھا کر وہ چیز لے لے گا۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی معاملہ میں ایک قوم پر قسم پیش کی تو وہ فوراً قسم اٹھانے کے لیے تیار ہو گئے۔ آپ نے حکم دیا کہ ان کے درمیان قرعہ اندازی کی جائے تاکہ جس کے نام قرعہ نکل آئے وہ قسم اٹھا کر اس چیز کا حق دار بن جائے۔ [6] اس مؤقف کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں یہ مذکور ہے کہ دو آدمی ایک چیز کے متعلق جھگڑ پڑے ان میں سے کسی کے پاس گواہ نہیں تھا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ قسم دینے کے لیے قرعہ اندازی کر لیں۔ [7] اس کی صورت بھی یہ ہے کہ ایک چیز کے متعلق دو آدمی دعوے دار ہیں لیکن وہ چیز کسی کے پاس نہیں اور نہ ہی اس کا کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو ایسے حالات میں ان دونوں کے لیے قرعہ اندازی کی جائے گی پھر جس کے نام قرعہ نکل آئے وہ قسم کے ذریعے
[1] ابو داود، البیوع: ۳۵۳۰۔ [2] صحیح ابن حبان، ص: ۲۲۶، ج۷ حدیث نمبر: ۴۲۴۵ [3] ابو داود، القضاء: ۳۶۱۵۔ [4] مسند امام احمد، ص: ۴۰۲، ج۴ [5] ارواء الغلیل، ص: ۲۷۶، ۲۷۷، ج۲۔ [6] ارواء الغلیل، ص: ۲۷۶، ۲۷۷، ج۲۔ [7] ابو داود، القضاء: ۳۶۱۶۔