کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 428
دیا جاتا ہے۔ رضاعی محرم: اس سے وہ مراد ہیں جو رضاعت یعنی دودھ کی وجہ سے محرم بن جاتے ہیں، حدیث میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے رضاعت سے بھی ان رشتوں کو حرام کیا ہے جنہیں نسب کی وجہ سے حرام کیا ہے۔[1] جس طرح نسبی محرم کے سامنے عورت کو پردہ نہ کرنا جائز ہے، اس طرح رضاعت کی وجہ سے محرم بننے والے شخص کے سامنے بھی اس کے لیے پردہ نہ کرنا مباح ہے یعنی عورت کے رضاعی بھائی، رضاعی والد اور رضاعی چچا سے پردہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے رضاعی چچا، افلح آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی تو میں نے انہیں اجازت نہ دی بلکہ ان سے پردہ کر لیا، جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے پردہ نہ کرو اس لیے کہ رضاعت سے بھی وہی حرمت ثابت ہوتی ہے جو نسب کی وجہ سے ثابت ہوتی ہے۔ [2] اس حدیث کے مطابق عورت کے رضاعی محارم بھی نسبی محارم کی طرح ہیں لہٰذا رضاعی محارم سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سسرالی محارم: عورت کے سسرالی محارم سے مراد وہ رشتہ دار ہیں جن سے شادی کی وجہ سے ابدی طور پر نکاح حرام ہوجاتا ہے جیسا کہ سسر اور اس کا بیٹا یا داماد وغیرہ۔ والد کی بیوی کے لیے محرم مصاہرت وہ بیٹا ہو گا جو اس کی دوسری بیوی سے ہو، سورۃ النور کی آیت ۳۱ میں اﷲتعالیٰ نے سسر اور خاوند کے بیٹوں کو شادی کی وجہ سے محرم قرار دیا ہے اور انہیں باپوں اوربیٹوں کے ساتھ ذکر کیا ہے اور انہیں پردہ نہ ہونے کے حکم میں برابر قرار دیا ہے۔ مذکورہ محرم رشتہ داروں کے علاوہ جتنے بھی رشتہ دار ہیں ان سے عورت کو پردہ کرنا چاہیے خواہ وہ چچا، پھوپھی، خالہ اور ماموں کے بیٹے ہی کیوں نہ ہوں، اسی طرح خاوند کے چچا اور ماموں سے بھی بیوی کو پردہ کرنا چاہیے کیونکہ وہ اس کے خاوند کے چچا یا ماموں ہیں اس کے نہیں ہیں۔ (واﷲ اعلم) کھانا کھانے والے اور قرآن پڑھنے والے کو سلام کہنا سوال ہمارے ہاں عام طور پر مشہور ہے کہ کھانا کھانے والوں اور قرآن پڑھنے والوں کو سلام نہیں کہنا چاہیے، اس کی کیا حیثیت ہے؟ وضاحت کریں۔ جواب کھانا کھانے والوں کو سلام نہ کہنے کی ممانعت کسی صحیح حدیث میں بیان نہیں ہوئی ہے، یہ محض مفروضہ ہی معلوم ہوتا ہے، جب نمازی کو سلام کہا جا سکتا ہے تو کھانا کھانے والوں کو سلام کہنے میں کیا قباحت ہو سکتی ہے؟ قران پڑھنے والوں کو سلام کہنے کے متعلق ایک حدیث مروی ہے جسے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم مسجد میں تھے اور قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، انہوں نے ہمیں سلام کہا اور ہم نے آپ کے سلام کا جواب
[1] مسند امام احمد، ص: ۱۳۱،ج۱۔ [2] صحیح مسلم، الرضاع: ۱۴۴۵۔