کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 426
نے ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے خاوند کے متعلق شکایت کی کہ میرا خاوند ابو سفیان رضی اللہ عنہ گھریلو اخراجات پورے ادا نہیں کرتا تو کیا مجھے اجازت ہے کہ میں اس کی آمدن سے اتنی رقم اس کی اجازت کے بغیر لے لوں جس سے گھر کا نظام چل سکے، اس پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اس کے مال سے اس کی اجازت کے بغیر اتنا لے سکتی ہو جس سے معروف طریقہ کے مطابق تیرے اور تیری اولاد کی گزر اوقات ہو سکے یعنی گھر کا نظام چل سکے۔ [1] امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’اگر خاوند اخراجات پورے نہ کرے تو بیوی کے لیے جائز ہے کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے اس قدر لے لے جس سے معروف طریقہ کے مطابق اہل خانہ کا گزارا ہو سکے۔‘‘ مندرجہ بالا احادیث کے پیش نظر اگر خاوند گھریلو اخراجات کی ادائیگی میں کنجوسی کرتا ہے تو بیوی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے اتنی رقم لے سکتی ہے جس سے گھر کا نظام چل سکے، لیکن یہ اجازت صرف ضروریات کے لیے ہے فضولیات کے نہیں نیز اگر ایسا کرنے سے بیوی خاوند کے درمیان اختلاف اور تعلقات کے کشیدہ ہونے کا اندیشہ ہے تو اس طریقہ سے اخراجات پورے نہیں کرنے چاہیے، کیونکہ بیوی خاوند کے تعلقات کی استواری مقدم ہے، اس بات کا فیصلہ بیوی خود کر سکتی ہے کہ ایسا کرنے سے تعلقات تو خراب نہیں ہوں گے، بہرحال ایسے حالات میں ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بیوی کو اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے اس قدر رقم لینے کی شرعاً اجازت ہے جس سے معروف طریقہ کے مطابق گزر اوقات ہو سکے۔ بیمار پرسی کی فضیلت سوال: اسلام میں بیمار پرسی کی کیا فضیلت ہے؟ وضاحت کریں۔ جواب: اگر کوئی مسلمان بیمار ہو جائے تو دوسرے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس کی تیمارداری کریں اور ایسا کرنا ان کا حق اور ذمہ داری ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں، سلام کا جواب دینا، مریض کی عیادت کرنا، جنازے میں شریک ہونا، دعوت قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا۔ [2] حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی تیمارداری کرتا ہے تو واپسی تک جنت کے باغیچے میں رہتا ہے۔ [3] حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کوئی مسلمان عیادت کی غرض سے اپنے مسلمان بھائی کے پاس بیٹھتا ہے اگر صبح کو عیادت کرے تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے دعا مغفرت کرتے ہیں اور اگر شام کو عیادت کرے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے بخشش کی دعا کرتے ہیں۔ [4]ان احادیث سے بیمار پرسی کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے لیکن عیادت کرنے والے کو چاہیے کہ وقت کا خیال رکھے اور اہل خانہ کی مصروفیات کو بھی پیش نظر رکھے اور بیمار کے پاس زیادہ دیر تک نہ بیٹھے۔ (واﷲ اعلم)
[1] صحیح بخاری، النفقات: ۵۳۶۴۔ [2] صحیح بخاری، الجنائز: ۱۲۴۰۔ [3] صحیح مسلم، البر والصلہ: ۲۵۶۸۔ [4] ابو داود، الجنائز: ۳۰۹۸۔