کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 425
کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے، جس سے اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہوتی ہو۔ (واللہ اعلم) قرآن کریم کی بے وضو تلاوت کرنا سوال: تلاوت قرآن کے لیے باوضو ہونا ضروری ہے یا بے وضو ہی قرآن پڑھا جا سکتا ہے؟ قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دیں۔ جواب: قرآن کریم کی تلاوت باوضو ہو کر کرنا بہتر اور افضل ہے، تاہم اسے بے وضو پڑھا جا سکتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے تھے، جب رات کو بیدار ہوئے تو اپنی آنکھوں کو ہاتھ سے صاف کیا اور سورۂ آل عمران کی آخری دس آیات کو تلاوت فرمایا پھر لٹکے ہوئے مشکیزہ کی طرف بڑھے اور اچھی طرح وضو کیا پھر نماز شروع کر دی۔ [1] اس حدیث پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یوں عنوان قائم کیا ہے۔ ’’بے وضو ہونے کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرنا‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان وضو کے بغیر قرآن مجید کی تلاوت کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت اﷲ کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ [2] اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان بے وضو تلاوت کر سکتا ہے، اگر وضو کی پابندی لگا دی جائے تو وہ بچے جو قرآن مجید یاد کرتے ہیں ان کے لیے بہت مشکل ہو گا، اس لیے ہمارا رجحان ہے کہ افضل اور بہتر ہے کہ انسان باوضو ہوکر تلاوت قرآن کرے تاہم اگر بے وضو ہے تو بھی قرآن کریم کی تلاوت کرنے میں چنداں حرج نہیں ہے۔ (واﷲ اعلم) خاوند کی اجازت کے بغیر پیسے لینا سوال: ہمارے گھر میں اﷲ تعالیٰ کا دیا ہوا سب کچھ ہے، اس کے باوجود میرے خاوند گھریلو اخراجات کے متعلق بہت تنگ کرتے ہیں، ایسے حالات میں مجھے شرعاً اجازت ہے کہ میں گھریلو اخراجات کے لیے اپنے خاوند کی جیب سے اس کی اجازت کے بغیر پیسے نکال لوں۔ جواب: نکاح کے بعد بیوی کے جملہ اخراجات کی ذمہ داری خاوند پر عائد ہوتی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’خوشحال کو چاہیے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق اخراجات پورے کرے اور تنگدست اﷲ کی دی ہوئی حیثیت کے مطابق خرچہ دے۔‘‘[3] اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی بات کی تلقین فرمائی ہے حدیث میں ہے: ’’بیوی کے کھانے پینے اور لباس وغیرہ کے اخراجات تمہارے ذمے ہیں۔‘‘[4]ان اخراجات میں کھانا، پینا، علاج، رہائش اور لباس وغیرہ شامل ہے، خاوند کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق ان اخراجات کو پورا کرے، اگر وہ ان اخراجات کی ادائیگی سے پہلو تہی کرتا ہے یا بخل سے کام لے کر پورے ادا نہیں کرتا تو بیوی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی بھی طریقہ سے خاوند کی آمدن سے انہیں پورا کر سکتی ہے جیسا کہ حضرت ھند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا
[1] صحیح بخاری، الوضوء: ۱۸۳۔ [2] صحیح مسلم، الحیض: ۳۷۳۔ [3] ۶۵/الطلاق: ۷۔ [4] صحیح مسلم، الحج: ۲۹۵۰۔