کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 420
گنجے پن کی دوا لینا سوال:آج کل گنجے پن کا ایک علاج دریافت ہوا ہے کہ بال اگائے جاتے ہیں، ایسا علاج شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔ جواب:بالوں کی پیوند کاری تو حرام ہے یعنی مصنوعی بالوں کو دوسرے بالوں کے ساتھ جوڑنا مصنوعی بالوں کو ہی استعمال کرنا شرعاً یہ فعل حرام اور ناجائز ہے، انصار کی ایک لڑکی بیمار ہوئی تو اس کے بال گر گئے، اہل خانہ نے مصنوعی بال پیوند کرنے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اس عورت پر جو بال پیوند کرتی ہے یا کراتی ہے۔‘‘ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جب حج سے فراغت کے بعدمدینہ طیبہ تشریف لائے تو انہیں مصنوعی بالوں کا گچھا ملا تو انہوں نے خطبہ دیا اور فرمایا: ’’اے اہل مدینہ! تمہارے علماء کدھر ہیں؟ بنی اسرائیل کی ہلاکت اسی وجہ سے ہوئی تھی کہ ان کی عورتوں نے ان مصنوعی بالوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔‘‘ [1] البتہ بال اگانے کا طریقہ طب جدید کا کشید کردہ ہے، یہ مصنوعی نہیں بلکہ اس طریقہ سے حقیقی بال اگائے جاتے ہیں۔ اس قسم کے علاج میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس کے متعلق وہ حدیث بطور دلیل پیش کی جا سکتی ہے کہ فرشتے نے ایک گنجے کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا تو اس کے خوبصورت بال اُگ آئے تھے، جیسا کہ ایک حدیث میں اس کا ذکر ہے۔‘‘ [2] اس حدیث کے پیش نظر ہمارا رجحان ہے کہ بالوں کو کاشت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ پیوند کاری حرام ہے۔ ریشم کا بستر بنانا سوال:ریشم پہننے کے متعلق اسلام کا کیا مؤقف ہے؟ کیا اس کا گدا وغیرہ بنایا جا سکتا ہے جسے نیچے بچھایا جائے؟ اس کے متعلق تفصیل سے لکھیں۔ جواب:ریشم کا استعمال شرعاً جائز نہیں ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے: ’’ریشم مت پہنو کیونکہ جس نے اسے دنیا میں پہنا وہ آخرت میں اس سے محروم رہے گا۔‘‘ [3] اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک دفعہ ریشمی لباس لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اسے آپ خرید لیں، عید اور وفود کے موقع پر زیب تن کیا کریں، آپ نے فرمایا: ’’یہ لباس تو ان لوگوںکا ہے جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔‘‘ [4] بعض اہل علم نے پہلی حدیث کے پیش نظر مطلق طور پر اسے حرام قرار دیا ہے جب کہ کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ عورتوں کے لیے
[1] صحیح بخاری، اللباس: ۵۹۳۲۔ [2] صحیح بخاری، احادیث الانبیاء: ۳۴۶۴۔ [3] صحیح بخاری، اللباس: ۵۷۳۴۔ [4] بخاری، اللباس: ۵۷۳۵۔